Saturday 4 February 2012

کریب نبیولا



کریب نبیولا کی ہبل ٹیلی اسکوپ سے لی گئی تصویر


{ویسے تو آج فلمستان کے لئے ایک اور ریویو لکھنے کا ارادہ تھا، سابقہ تجربے کہ بعد توسائنسی موضوعات پرہی  لکھنے کا  ارادہ نہیں تھا۔ لیکن ہماری چھوٹی بہن نے جب آج ہمیں فون کیا اور سوال کیا کہ فلکیات پر اردو میں کوئی بہترین کتاب مل سکتی ہے کیا؟ میرا جواب نفی میں تھا۔ دراصل اچھی کتاب کیا میں تو اردو میں فلکیات کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں دیکھی البتہ فلکیات کے نام پر جعلی سائنس یعنی علم نجوم پر کئی کتاب مل جاتی ہیں، تو پھر میں نے سوچا کیوں نہ  اردو میں خود ہی کچھ دلچسپ لکھا جائے،اسی لئے میں نے کریب نبیولا کو موضوع کیونکہ میرے خیال ہےکہ کائنات میں رنگ بکھیرتے اور دلچسپ شکلیں بناتے نبیولا سے ذیادہ خوبصورت اور کوئی چیز نہیں۔}

پرانے وقتوں میں شمالی امریکہ میں سرخ ہندی قوم کا ایناسازی نامی قبیلہ رہا کرتا تھاجو کہ پہاڑوں کو تراش کر اور گارے کے ساتھ گھر بناکر رہا کرتے تھے، پرانے وقتوں کی دوسری قوموں کی طرح ایناسازی بھی ستاروں پر نظر رکھا ، زمانہ قدیم میں ستاروں کہ بارے میں یہ نظریہ عام تھا کہ یہ ہمیشہ یکساں رہتے ہیں لیکن چارجولائی ۱۰۵۴ کو ایناسازی لوگوں نے آسمان پر ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ برج ثور میں جسے ایک خیالی بیل سے تشبیہ دی جاتی ہے، میں ایک نیا انتہائی چمکدار ستارہ نمودار ہوا، اس ستارے کی روشنی اس قدر تھی کہ اس کی روشنی میں رات کو پڑھا جاسکتا تھااور ہفتوں تک یہ ستارہ دن کی روشنی میں بھی نظر آتا تھا، ان لوگوں میں ہی سے کسی اس ستارے کی تصویر ایک پہاڑ پر بنادی جوکہ آج ایک ہزار سال کہ بعد بھی موجود ہے۔ ہزاروں میل دور چین میں فلکیات دانوں نے بھی اس نئے ستارے کو دیکھا جسے انہوں نے مہمان ستارے کا نام دیا۔ یہ نیا ستارہ کیاتھا؟ آج ہم اس جگہ کو جہاں یہ ستارہ دیکھا گیا تھا، کریب نبیولا کا نام دیتے ہیں ، یہاں گردغبار کا ایک عظیم بادل ہے جوکہ ایک ستارے کا ملبہ ہے جس نے خود کو ایک زبردست دھماکہ سے تباہ کرلیاتھا۔


ایناسازی لوگوں کی بنائی ہوئی تصویر


سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ نبیولا کیا ہوتے ہیں؟؟ نبیولا لاطینی ذبان جس کے معنیٰ ہیں بادل اوردراصل نبیولاگیس اور گردغبار کے  بادل ہی ہوتے ہیں لیکن زمین سے ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر اور کئی نوری سال پر پھیلے ہوئے، اکثر نبیولا دراصل ستاروں کی پیدائش گاہ ہوتے ہیں مثال کہ طور پر  ذمین سے دکھائی دینے والا پندرہ سو نوری سال  دور واقع  اورائین نبیولا،  یا ایک اور مثال ایگل نبیولا بھی ہے جس کی تصویر"تخلیق کے ستون"ہبل دوربین سے کھنچی گئی سب سے خوبصورت تصویر مانی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کریب نبیولا کے بادل ایک ستارے کے دھماکے سے فناء ہونے کے باعث وجود میں آئے ہیں، ایسے عظیم دھماکے کو سپر نوا کہاجاتاہے{ہر ستارہ ایک عظیم دھماکہ سے فناء نہیں ہوا کرتا ، ستاروں کی پیدائش اور موت کےبارے میں پوسٹ بہت جلد}۔یہ وہ واحد سپر نوا ہے جس کا ذکر انسانی تاریخ میں ملتا ہے اور اس کے بعد کوئی سپر نوا زمین سے نہیں دیکھی گئی۔



"تخلیق کے ستون"

۱۷۵۸ میں چارلس میزیئر نامی فرانسیسی فلکیات دان نے خلاء میں ایسی اشیاء کی فہرست مرتب کی جن پر شہابیہ ہونے کا دھوکہ ہوتا تھا لیکن وہ شہابیے نہیں تھے، کریب نبیولا اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اسے ایم ۔ون کا نمبر دیا گیا جسے آج بھی استعمال کیا جاتاہے۔  سن ۱۸۴۴  میں برطانوی فلکیات دان اور راس کے تیسرے نواب ولیم پارسنز نے اپنے مشاہدے پر مبنی کریب نبیولا کا ایک خاکہ بنایا کسی حد تک کیکڑے سے مشابہت رکھتا تھا ، اسی بناء پر اس کا نام کریب نبیولا رکھاگیا۔کریب نبیولا واحد سپرنوا کی باقیات ہے جسے عام سی ٹیلی اسکوپ سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن عام ٹیلی اسکوپ سے دیکھنے پر گردوغبار کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نظر آتا ہےلیکن اس کی اصل خوبصورتی بڑی ٹیلی اسکوپ استعمال کرکے دیکھا جاسکتی خصوصا ہبل ٹیلی اسکوپ سے لی گئی تصاویر  تو باکمال ہیں۔


ولیم پارسنز کا خاکہ 

گردوغبار کے اس وسیع بادل کے وسط میں ایک پلسار موجود ہے، پلسار ایک نیوٹران ستارہ ہوتا ہے جوکہ تباہ ہوئےستارے کا انتہائی کثیف اور انتہائی مقناطیسی  مرکزہ ہوتا جو تباہ ہونے سے بچ جایا کرتا ہے۔ پلسار اپنے آپ میں ایک انتہائی دلچسپ چیز ہوتے ہیں ، یہ انتہائی بھاری ہوتے ہیں ایک چائے کا چمچ پلسار کا وزن زمین پر بسنے والے کل سات ارب انسانوں کے مجموعی وزن کے کم و بیش برار ہوا کرتاہے، لیکن پلسار کی سب سے بڑی پہچان ان کا کسی لائٹ ہاوَس کی طرح روشنی کی دو شعائیں خارج کرنا ہے، ۱۹۶۷ میں دریافت ہونے والے پہلے پلسارکو اپنی انہیں شعاوَں کے باعث کسی ایلین تہذیب کا نشان سمجھا گیا تھا ۔


پلسار ایک خاکہ


پلسار اپنے محور کے گرد بہت تیزی چکر لگایا کر تے ہیں، زمین اپنے محور کے گرد ایک چکر ۲۴ گھنٹے میں مکمل کرتی ہے جبکہ کائنات میں ایسے بھی پلسار ہیں جو کہ ایک سیکنڈ میں تین سو چکرمکمل کرتے ہیں۔کریب نبیولا میں موجود پلسار جسے کریب پلسار کہا جوتا ہے محض اٹھائیس کلومیٹر قطر رکھتا ہے اور اپنے محور کے گرد ایک سیکنڈ میں تینتیس چکر لگاتاہےیہ زمین تک پہچنے والی گیما شعاوَں کا سب سے بڑا ماخذ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایک ریڈیو ٹیلی اسکوپ سے پلسار کو سنا بھی جاسکتا ہے۔


کریب پلسار کی آواز

ہمارے گرد پھیلی ہوئی اس وسیع کائنات میں ہرلمحے تبدیلی کا عمل جاری ہے ، ہم انسانوں کی زندگی کائنا ت میں تبدیلی کی رفتار کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں اسی لئے ہمیں کائنات منجمد لگتی ہے مگر اگرہم واقعی ایک بہت لمبے عرصے تک مشاہدہ کریں تو ہرچیز تبدیل ہوجائےگی۔کائنات میں ہروقت تعمیر اور تباہی کا عمل جاری ہے اور شاید اسی عمل کو دیکھتے ہوئے اقبال نے کہا تھا کہ۔

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

4 comments:

  1. بڑی کریب نیبولے قسم کی تحریر ہے۔
    ویسے نظر کمزور ہونے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم آدھی تحریر میں نیولا سمجھتے رہے

    ReplyDelete
  2. ایک اچھی اور معیاری کوشش ہے، نیبولا کا مطلب لاطینی میں دھندلا بھی لیا جاتا ہے جبکہ نیبیا دھند کو ہی کہا جاتا ہے،اطالوی زبان مین بھی،

    ReplyDelete
  3. خوب لکھا ہے جی اب نے علم میں اضافه هوا
    امید هے که اپ لکھتے رهیں گے
    تحریر پڑھ کر واقعی بڑی خوشی هوئی هے

    ReplyDelete
  4. آپ کی تحریریں پڑھنے کے لئے الگ سے وقت نکالنا پڑے گا

    ReplyDelete