Sunday 24 November 2013

ٹیلی وژن سیریز ریویو ۔ ڈاکٹر ہو کے پچاس سال۔


دی ڈے آف دی ڈاکٹر


کون نہیں چاہتا ہوگا کہ ہماری لگی بندھی بور سی زندگی میں ایک بھونچال آجائے، کہ ہمارے ہاتھ کوئی جادو کا چراغ لگ جائے جو ہمیں عام لوگوں کی فہرست سے نکال کر خاص بنادے، کہ کوئی طاقتور مخلوق ہماری دوست بن جائے اور ہمیں کہیں دور دراز  ایڈوینچر پر لے جائے یا خود ہمیں کوئی عظیم طاقت حاصل ہوجائے جو ہماری ڈل زندگی میں رنگ بھردے ایک لمحے ہم روزمرہ کے معاملات سے بور ہورہے ہوں  اور اگلے ہی لمحے ساری کائنات ہماری منتظر ہو۔ ہماری یہ چاہت آج کی نہیں بلکہ صدیوں سے انسانی جبلت کا حصہ ہے اور صدیوں سے ہی ہمارا تخیل ہمیں خوش رکھنے کے لئے پراسرار اور حیرت انگیز کہانیاں تراشتا چلا آرہا ہے، بچپن کے اس لکڑہارے جسے شہزادی کے ساتھ ساتھ آدھی  سلطنت بھی مل جاتی ہے سے لیکر عینک والا جن اور عمران سیریز تک یہ کہانیاں  ہمیں اپنے سحر میں یوں جکڑ لیتی ہیں کہ ہم خود کو ان کہانیوں کا ایک کردار محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں۔

دورجدید جس طرح سے زندگی کے ہرپہلو پر بھرپور طریقے سے اثرانداز ہوا ہے اسی طرح ہماری کہانیوں پر بھی اس نے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ پچھلی دوصدیوں کی سائنسی ترقی نے ادب میں ایک نئے شعبے سائنس فکشن کوجنم دیا ہے، ماضی قریب کی فلموں اسٹار وارز، اسٹار ٹریک، بیک ٹودا فیوچر، جراسک پارک اور ایواتار سے تو ساری دنیا ہی واقف ہےخود پاکستان کا  سب سے طویل سلسلہ وار ناول "دیوتا" بھی بنیادی طور پر ایک سائنس فکشن کہانی ہے۔ انیس ویں صدی کے ایک فرانسیسی ادیب جولیس ورن  اس صنف کے اولین لکھاری ہیں اور بابائے سائنس فکشن کہلاتے ہیں، بیسویں صدی میں اس صنف کے تین بڑوں آئیزک آسموف، آرتھر سی کلارک اور رابرٹ ہنلین نےسائنس فکشن کو شہرت کی نئی بلندیوں پر پہچایا۔

ٹارڈس ۔ بیرونی منظر

ٹارڈس۔ اندرونی منظر


وقت میں سفر سائنس فکشن کہانیوں کا ایک اہم عنصر رہا ہے اسے متعارف کروانے کا سہرا عظیم سائنس فکشن لکھاری ایج جی ویلز کو جاتا ہےجنہوں نے 1895 میں اپنے ناول ٹائم مشین میں اسے بطور مرکزی عنصر شامل کیاتھا۔ برقی ذرایعے ابلاغ کے متعارف ہونے سے کہانیاں پیش کرنے کا ایک نیا ذریعہ وجود میں آیا جہاں وقت میں سفر کے موضوع پر بھی کئی تخلیقات پیش کی گئیں جن میں بیک ٹو دا فیوچر اور خود ایج جی ویلز کی ٹائم مشین شامل ہیں، ان تمام تخلیقات میں سے کامیاب ترین  برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی پیش کردہ ٹیلی ویژن سیریز  Doctor Who ہے جس کی کامیابی کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ  1963 میں شروع ہونے والی یہ سریز 1989 تک بلا تعطل جاری رہی، 2005 میں کا دوبارہ آغاز کیا گیا اور یہ سیریز آج تک جاری ہے  اس طرح  یہ سریز ٹیلی ویژن کی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ چلنے والی سیریز بن چکی ہے۔آج 23 نومبر 2013 کو ڈاکٹر ہو کے ٹیلی ویژن پر پچاس سال مکمل ہوجائینگے۔
ڈاکٹر ہو ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو کہ زماں و مکاں کا مسافر ہے، خود کو صرف ڈاکٹر کہلانے والا یہ شخص سیارہ گالافرے سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی قوم ٹائم لارڈز کہلاتی تھی لیکن اب وہ پوری کائنات میں اکیلا ہےاس کا سیارہ گالافرے اور اس کے لوگ ایک جنگ میں فناء ہوچکے ہیں۔ اس کے پاس ایک پرانا خلائی جہاز ہے جو ٹارڈس (Time And Relative Dimension In Space - TARDIS)کہلاتا ہے، دکھنے میں یہ ایک پرانا برطانوی پولیس کال باکس دکھائی دیتا ہے لیکن اندر سے یہ ایک وسیع و عریض خلائی جہاز ہے جوکہ کائنات میں کہیں بھی اور کبھی بھی  پہنچ سکتا ہے۔ ڈاکٹر ااپنے سفر میں جن لوگوں سے ملتا ہے یا جن سیاروں پر جاتا ہے اگر وہ خطرے میں ہوں تو وہ انکی مدد کرتاہے، ان کے دشمنوں سے لڑتاہے لیکن  ڈاکٹر خود امن پسند ہے اور کبھی ہتھیار نہیں اٹھاتا ، وہ نہایت عقلمند ہے اور اسی کو وہ بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے  اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ  بہت رحمدل ہے۔ اپنے اس سفر میں ڈاکٹر کئی لوگوں سے ملتا ہے جو اسے پسند آتے ہیں وہ انہیں اپنا ساتھی بنالیتا ہے لیکن یہ ساتھ ہمیشہ نہیں رہتا  خود ڈاکٹر بھی اگر کبھی شدید زخمی ہوجائے تو اسکا جسم ری جنریشن کے حیاتیاتی عمل سے گزرتا ہے جس سے اسے دوبارہ زندگی تو مل جاتی ہے لیکن اس کا جسم تبدیل ہوجاتاہے۔

Title Sequence - 2013


ڈاکٹر ہو پچاس سال قبل بی بی سی پر  بچوں کے لئےبطور معلوماتی پروگرام  شروع کیا گیا تھا، پروگرام کا مقصد وقت میں سفر کو استعمال کرکے بچوں کو ماضی اور سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرنا تھا، باوجود کم بجٹ اور ادنیٰ معیار کے گرافکس کے ڈاکٹر ہو اپنے اچھوتی کہانیوں کی وجہ سے مشہور ہوگیا، آج بھی جب کہ ڈاکٹر ہو کے گرافکس معیاری  اور بجٹ بہت بہتر ہے ڈاکٹر ہو کی کامیابی کا راز اس میں پیش کی جانے والی کہانیاں ہیں،  کہانی کا مرکزی پلاٹ انتہائی لچکدار ہے، ایک ایسا شخص جوکہ کائنات میں کبھی بھی اور کہیں بھی پہنچ سکتا ہواس کے لئے کیا مشکل ہے کہ وہ امریکی صدر نکسن کے ساتھ مل کرکام کرے (اقساط ، Impossible astronaut, Day of the Moon ) دوسری جنگ عظیم میں لندن پر بدترین بمباری کے دوران لندن کے شہریوں کی جنیات کو تبدیل کرتے مائیکرو باٹس کو روکے (اقساط The empty Child, The Doctor Dances)یا مستقبل بعید میں اپنی ساتھی کو زمین کی تباہی کا منظر دکھانے لے جائے(قسط The end of the World )۔ خود ڈاکٹر کا کردار بھی پروگرام کی کامیابی کی اہم وجہ ہے اب تک گیارہ اداکاروں نے ڈاکٹر کا رول نبھایا ہے اور ہر اداکار نے ڈاکٹر کو ایک نیا روپ دیا ہے لیکن ان تمام میں ایک بات مشترک ہے اور یہ ڈاکٹر کو دیگر سائنس فکشن پروگرامز سے منفرد بناتی ہے کہ ڈاکٹر کے پاس ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتا ، ہرسوال کا جواب اس کے پاس نہیں ، وہ خوفزدہ بھی ہوتا ہے وہ غلطیاں بھی کرتاہے باوجود انسان نہ ہونے کہ ، باوجود ایک کی بجائے دو دل رکھنے کے ڈاکٹر مافوق الفطرت طاقتیں نہیں رکھتا بلکہ عام انسانوں کی طرح  ہی اپنی عام سی صلاحیات پر بھروسہ کرتاہے۔

ڈاکٹر ہو خامیوں سے مبرا بلکل نہیں ہے، سیریز کی اپنی خامیاں ہیں ، پرانی سیریز کے ادنی گرافکس نئی سیریز کے شروع میں بھی باقی تھے، نئی سیریز کے بعض اقساط کی کہانیاں کسی حد تک مضحکہ خیز ثابت ہوئیں اور ذاتی طور پر مجھے پرانی سیریز کے ولن نئی سیریز میں بلکل اچھے نہیں لگتے لیکن یہ خرابیاں  مجموعی طور پر سیریز کی اچھائیوں کہ مقابلے میں کچھ بھی نہیں اسی لئے اگر آپ سائنس فکشن پسند کرتے ہیں تو ڈاکٹر ہوآپ کو ضرور پسند آئے گا اور اگر آپ سائنس فکشن کے شوقین نہیں بھی ہیں تو بھی یہ چند اقساط ضرور دیکھیں۔

Empty Child & Doctor Dances. Season 1 Ep. 9&10


Blink. Season 2 Ep10.


The Impossible Astronaut & The day of the Moon. Season 6 Ep. 1&2


A Christmas Carol. Christmas Special 2010


Friday 9 March 2012

حیاتیاتی ارتقاء ۔ حصہ دوم، خرد ارتقاء


بقائے اصلح
Survival of The Fittest.


کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ میں یہاں بیمار پڑگیا، ویسے تو میں بہت کم بیمار پڑا کرتا ہوں اور چھوٹی موٹی بیماریاں خود ہی ٹھیک ہوجاتی ہیں لیکن اس بار میری ٹھیک ٹھاک حالت خراب ہوگئی مجھے بخار اور کھانسی کی شکایت تھی۔ ویسے تو اسکینڈے نیویا میں علاج معالجہ مفت ہے لیکن یہاں دوائیاں کم ہی دی جاتیں ہیں، جس طرح پاکستان میں سردرد کی ایک ہزار گولیاں مل جاتیں ہیں یہاں ایک بھی نہیں ملتی اور پیناڈل کے سواء ہر دوا ڈاکٹر کے مشورے سے ہی دی جاتی ہے۔ یہاں تبدیل ہوتے موسم میں عام بخار اور کھانسی کو بیماری بھی نہیں سمجھا جاتا اور جن علامات پر پاکستانی ڈاکٹر دوائیوں کا ایک ڈھیر مریض کے حوالے کر دیتا ہے یہاں صرف آرام  اور گرم مشروبات پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ تین روز تو میں نے بیماری کو از خود ٹھیک ہونےکا موقع دیا لیکن حالت مزید خراب ہونے پر مجھے اسپتال جانا پڑاجہاں معائنہ کے بعد ڈاکٹر نے یہی کہا کے یہ موسمی اثرات ہیں اس لئے آرام کرو اور کافی پیو، لیکن مزید پانچ دن بعد بھی میری حالت میں بہتری نہیں آئی، میرا  وزن کم ہونے لگا، اور کھانسی کے دوران مجھے اپنے خون کی بو آنے لگی لیکن ڈاکٹر کے نزدیک یہ محض میری کھانسی کی وجہ سے حلق میں پڑنے زخموں کی وجہ سے ہے۔ دوروز بعد میں تیسری بار اسپتال گیا تاکہ ڈاکٹر کو کسی طرح اینٹی بائیوٹک لکھنے پر راضی کرسکوں لیکن اس دن ایک دوسرا ڈاکٹر موجود تھاجس نے اس بار پھیپڑوں کا معائنہ کیا  تو معلوم ہوا کہ جناب ہمیں نمونیا ہےاور بلاخر ڈاکٹر مجھے دوا دینے پر راضی ہوگیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہاں کے ڈاکٹر اینٹی بائیوٹکس کے اتنے خلاف ہیں؟

ماضیِ بعید میں جب انسان جنگلوں میں رہا کرتا تھا تب اس کے کئی شکاری تھے  لیکن ہزاروں سالوں کی ترقی نے انسانی زندگی اب کافی محفوظ بنادی ہے، لیکن اس کے باوجود انسان کا ایک سب سے خطر ناک دشمن باقی ہے  اور وہ ہے بیکٹیریا، جی ہاں یہ چھوٹا سا جرثومہ انسان کا سب سے بڑا شکاری ہے اور انسان کو بہت ساری بیماریاں اسی جرثومے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ایسا ہے ایک جراثیمی حملہ مجھ پر بھی نمونیا کی صورت میں ہوا تھا اور میرا مدافعاتی نظام اسے روکنے میں ناکام رہا تھا۔یہاں کے ڈاکٹر انتہائی ضرورت کے موقع پر ہی اینٹی بائیوٹک ادویات دیتے ہیں کیونکہ جراثیمی حملوں کو روکنے کے لئے جسم میں پہلے ہی سے ایک مدافعاتی نظام موجود ہے اور وہ باہر سے آنے والی ہرچیز بشمول اینٹی بائیوٹک دوا کے اثر کو روکنے کی کوشش کرتاہے، اسی لئے اینٹی بائیوٹک ادویات نقصان دہ جراثیم کے علاوہ انسان کے مدافعاتی نظام کو بھی نقصان پہچاتے ہیں اور اگر اینٹی بائیوٹکس کا بہت ذیادہ استعمال کیا جائے تو یہ بے اثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ایسا کیوں ہوتاہے؟ جواب شاید کچھ لوگوں کے لئے حیران کن ہو یعنی عملِ ارتقاء۔ جس طرح کسی بھی قدرقی آفت سب سے پہلے کمزوروں کے جان لیتی ہے اسی طرح اینٹی بائیوٹک ہمارے مدافعاتی نظام کے ان اراکین کا سب سے پہلے خاتمہ کرتی ہے جو اس دوا کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں  لیکن طاقت ور اس دوا کا مقابلہ کرتے ہیں ، زندہ رہتے ،اپنی نسل بڑھاتے ہیں اور اس مدافعاتی صلاحیت کو اپنے اولاد میں منتقل کرتے ہیں۔

ارتقاء کے اس عمل سے ہمارے مدافعاتی نظام  ہی نہیں  بلکہ حملہ آور جرثومے بھی گزرتے ہیں، حملہ آور بیکٹیریا کے بڑی آبادی اینٹی بائیوٹکس کے اثر سے مر جاتی ہےلیکن چند بیکٹیریا پر جینیاتی تغیر { Mutation } کی وجہ سے دوا اثر نہیں کرتی اور وہ زندہ رہتے ہیں ، ان بیکٹیریا کو اگر مناسب ماحول مل جائے تو یہ دواسے مدافعت رکھنے والی بیکٹیریا کی نئی نسل پیدا کرتےہیں،  اس بیکٹیریا کوختم کرنے کے لئے دوا کی مقدار بڑھائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ  مدافعت بھی بڑھ جاتی ہےحتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دوا کسی کام کی نہیں رہتی اورایک مکمل مدافعت رکھنے والا بیکٹیریا پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں اسکینڈےنیویا کے ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک تجویز کرنے سے ہرممکن پرہیز کرتے ہیں کیونکہ ان کا زیادہ  استعمال نہ صرف انہیں بے اثر کرتا ہے بلکہ خود بیکٹیریا میں تبدیلیوں کا سبب بن کر انہیں مزید خطرناک بنادیتا ہے ۔تبدیلی کے  اس عمل کو خردارتقاء یا مائیکرو ایولوشن کہاجاتاہے جوکہ بقائے اصلح  { survival of the fittest } کی بنیاد پر قدرتی انتخاب { Natural Selection } کی وجہ سے ہوتاہے۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی سے میتھاسیلن نامی دوا کا استعمال متروک ہوچکا ہےکیونکہ جس بیکٹیریا کے خلاف یہ دوا استعمال کی جاتی تھی وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو تبدیل کرچکا ہے،خرد ارتقاء کی چند مزید مثالیں یہ ہیں۔

Methicillin-Resistant Staphylococcus Aureus
Vancomycin-Resistant Staphylococcus Aureus
Penicillin-Resistant Pneumococcus
Penicillin-Resistant Enterococcus
Linezolid-Resistant Enterococcus
Clindamycin-Resistant Clostridium Difficile
Sulfonamide-Resistant Becteria
Extensively Drug-Resistant Turberculosis

خرد ارتقاء کی ایک اور بہترین مثال نائیلون کھانے والا بیکٹیریا ہے۔سن انیس سو پچھتر میں جاپانی سائنسدانوں نے نائیلوں فیکٹریوں میں استعمال شدہ پانی کے تالابوں میں بیکٹیریا کی ایک قسم دریافت کی جو کہ تالاب میں موجود  نائیلون کے بائی پروڈکٹس کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے ، نائیلون ایک انسانی ایجاد ہے  اور انیس سو پینتیس سے قبل زمین پر کہیں بھی نائیلون نہیں پایا جاتا تھا اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا ہےکہ ایک بیکٹیریا تخلیقِ کائنات کے دن سے بھوکا تھا اوراربوں سال سے  انسان کے نائیلون ایجاد کرنے کےانتظارمیں زندہ تھا اور انیس سو پینتیس میں اپنی خوارک کے انسان کے ہاتھوں ایجاد کے بعد جاپان کی نائیلون کے کی فیکٹریوں کے قریب جابسا نہیں ایسا یقینا نہیں ہے یہ بیکٹیریا پہلے سے موجود کسی اور بیکٹیریا کی ارتقائی شکل ہے۔

یہاں تک تو بات کافی سادہ ہے یعنی بیکٹیریا ایک مشکل زندگی گزارتا ہے اس لئے جو بیکٹیریا خود کو ماحول کے مطابق اچھی طریقے سے ڈھال لیتے ہیں وہی اس قابل رہتے ہیں کہ اپنی نسل بڑھا سکیں، اور ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ چھوٹی چھوٹی وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہوتی رہتی ہیں اور آخر کار فرق اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ایک بلکل تبدیل شدہ بیکٹیریا سامنے آتاہے۔اس دوران پرانے قسم کا بیکٹیریا ناپید ہوسکتا ہے ، نئے بیکٹیریا کے متوازی جدا زندگی گزار سکتا ہے یا ایک اور قسم میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ تو تھا خرد اتقاء جسے ہم براہِ راست دیکھ سکتے ہیں کیونکہ بیکٹیریا انتہائی سادہ جاندار ہیں اور ان میں ہونے والے ذرا سی جنیاتی تبدیلی کچھ ہے عرصے میں ایک واضح بڑی تبدیلی بن جاتے ہیں جبکہ بڑے جانداروں میں ارتقائی تبدیلیوں کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ تبدیلیں کروڑوں سال لیتی ہیں، ارتقائے کبیر یعنی { Macro Evolution } کے بارے میں میں اگلے حصہ میں بات کروں گا۔

Wednesday 29 February 2012

حیاتیاتی ارتقاء ۔ حصہ اول


چارلس ڈارون




بارہویں صدی عیسوی کی بات ہے کہ جاپان پر ہیکے نامی سیمورائے جنگجووَں کے ایک قبیلے کی حکومت تھی، اس قبیلے کا سردار اور جاپان کا بادشاہ ایک سات سالہ بچہ اینتھوکو تھا جو اپنی دادی  نی ای خاتون کی سرپرستی میں جاپان حکومت کرتا تھا لیکن اس قبیلےکا ایک مخالف سیمورائے قبیلہ بھی تھا جس کا نام گانجی تھا۔ گانجی اور ہیکے قبائل میں جنگ اس بات پرتھی کہ  جاپان کےتاج  و تخت کا اصل وارث کون ہے۔چوبیس اپریل سن گیارہ سو پچاسی میں ان دونوں قبیلوں میں دانواُورا  کے مقام پر ایک آخری لڑی ہوئی جس نے جاپان کے تاج و تخت کا فیصلہ کردیا، اس جنگ میں ہیکے قبیلے کو بدترین شکست ہوئی اور باقی بچ جانے والے جنگجووَں نے سمندر میں ڈوب کر خودکشی کرلی۔

بادشاہ  کی دادی جو کہ دور سمندر میں کشتی پر سوار اس اپنے پوتے کہ ساتھ اس منظر کو دیکھ رہی تھی،نے فیصلہ کیا کہ وہ گرفتاری نہیں دے گی، بادشاہ اینتھوکو نے اس سے سوال کیا کہ دادی اب مجھے کہاں لے جاوَ گی ،دادی نے کوئی جواب نہ دیا صرف آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھا اور  بادشاہ اینتھوکو نے اپنی دادی کی آنکھوں میں اپنے سوال کا جواب پالیا ،  اس نے اپنے خوبصورت چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو باہم جوڑ کر پہلے مشرق اور پھر مغرب کی طرف رخ کرکے خداوَں کو الوادع کہا اور پھر اپنی دادی کی بانہوں میں سمٹ کر ان الفاظ کے ساتھ کہ "سمندر کی گہرایوں میں ہمارا  دارالحکومت ہے" خود کو سمندر کی لہروں کے حوالے کردیا، اس طرح نہ صرف ہیکے قبیلے کا تیس سالہ دورِ حکومت ختم ہوا بلکہ خود ہیکے قبیلہ بھی سوائے تیتالیس خواتین کے صفحہِ ہستی سے مٹ گیا۔ اپنے دورِ عروج میں شہزادیاں اور نواب زادیاں کہلائی جانے والی یہ خواتین جنگ کےبعد میدانِ جنگ کے قریب واقع مچھیروں کی بستیوں میں آباد ہوئیں جہاں وہ پھول بیچاکرتیں تھیں، آج تک ان خواتین کی اولاد ہر سال چوبیس اپریل کو ہیکے جنگجووَ ں اور بادشاہ اینتھوکو کی یاد مناتی ہے۔

ہیکے جنگجووَں کی کہانی دلچسپ ہے لیکن اس کہانی سے کہیں ذیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز  اسی کہانی سے جڑا ایک اور واقعہ ہے۔اس علاقے کے مچھیر کہتے ہیں کہ ہیکے جنگجو آپ بھی سمندر کی گہرایوں میں موجود ہیں، ایک خاص قسم کے کیکڑے کی شکل میں۔ اس علاقے میں ایک خاص کیکڑا پایا جاتا ہے جس کی پشت کہ نشانات بلکل ایک جاپانی سیمورائے جنگجو کے  چہرہ سے ملتے ہیں، یہ مچھیرے ان کیکڑوں کو کھاتے نہیں ہیں بلکہ ایسے کیکڑوں کو واپس سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جی ہاں کہانی کا یہ حصہ یقناً حیرت انگیز ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایک کیکڑے کی پشت پر ایک انسانی چہرا کیسے آگیا؟ یہ سوال جس قدر حیرت انگیز ہے اسکا جواب اسی قدر ہے آسان ہے، اور وہ یہ کہ چہرا انسانوں کا بنایا ہواہے ، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیسے تو اسکا جواب ہے  مصنوعی انتخاب یا آرٹیفیشل سلیکشن جو کہ ارتقائی عمل کا ایک اہم جز ہے۔


ہیکے کیکڑا


یہ مصنوعی انتخاب کیا چیز ہے؟ فرض کریں کہ ایک سمندر میں کافی سارے کیکڑے ہیں ، یہ تمام کیکڑے اپنے والدین سے ملتے جلتے لگتے ہیں لیکن ان میں کچھ فرق بھی ہے جس طرح بہن بھائیوں کی شکل آپس میں کچھ کچھ ملتی ہی لیکن ان میں فرق ہوتاہے۔ ان کیکڑوں میں اتفاق سے ایک کی پیٹھ کے نشانات میں انسانی چہرے کی انتہائی معمولی سی شباہت آتی ہے جو کہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ، یہ تمام کیکڑےایک دن کسی شکاری کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور جب شکاری انہیں سمندر سے باہر نکالتا ہے تو اسے انسانی چہرے کی معمولی سے شباہت رکھنے والا کیکڑا دیکھ کر حیرت ہوتی ہی اور وہ  قدیم لوگوں کی طرح ایک نظریہ قائم کرلیتا ہے کہ اس کیکڑے کے روپ میں یقیناً کوئی انسانی روح ہے اور اس کیکڑے کو واپس پانی میں پھینک دیتا ہے۔  کیکڑا واپس سمندر میں جاتا ہے جہاں وہ اپنی نسل بڑھاتاہے اور اصولِ وراثت کے تحت اپنی خصوصیات اگلی نسل میں منتقل  کرتا ہے ، اس کی اگلی نسل میں بھی وہ کیکڑے شکاریوں سے بچ جائیں گے جن کی پشت کسی حد تک انسانی شکل سے ملتی ہوگی یعنی جوکیکڑا جس قدر انسانی شکل سے ملتی جلتی پشت کا حامل ہوگا اتنا ہے اس کو شکاریوں سے تحفظ حاصل ہوگا اور وہ اپنے نسل بڑھا سکے گا۔ شکاریوں کا یہ رویہ بناء جانے بوجھے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کس کیکڑے کو زندہ رہنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں اور وہ اپنے نسل بڑھاسکتے ہیں اور اپنے جنیاتی خصوصیات بشمول پشت پر بنے انسانی چہرے  کو نئی نسل کو منتقل کرسکتے ہیں، لیکن یہ شکل ہر کیکڑے میں یکساں نہیں رہتے بلکہ تھوڑی تھوڑی تبدیل ہوتی رہتی ہے جس طرح انسانوں میں بچے ماں باپ کی کاربن کاپی نہیں ہواکرتے تو ان کیکڑوں میں سے وہی شکاریوں سے محفوظ رہیں گے جن میں یہ تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں مزید بہتر  یا کم از کم اپنے ماں باپ جیسی انسانی شکل انکی پشت پر بنائیں، اس طرح سینکڑوں سال گزرنے کے بعد ان کیکڑوں کی پشت پر صرف انسانی شکل نہیں، صرف جاپانی شکل نہیں بلکہ ایک جاپانی سیمورائی جنگجوکی شکل آنے لگتی ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیکڑے خود کیا چاہتے ہیں ، کیونکہ ارتقائی عمل میں انتخاب  خواہ مصنوعی ہو کہ قدرتی ، باہر سے مسلط کیا جاتاہے۔

اپنی پشت پر انسانی چہرے کی شباہت رکھنے والے یہ جاپانی کیکڑے مصنوعی انتخاب کے ذریعے ارتقاء کی محض ایک مثال ہے جس میں انتخاب کرنے والے انسانوں کو یہ پتا بھی نہیں تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں، لیکن انسان جان بوجھ کر مصنوعی انتخاب کے ذریعے حیاتیاتی ارتقاء ہزاروں سال سے کرتے ہوئے آرہے ہیں، اور اب بھی کررہے ہیں۔ہم جو اناج ، سبزیاں اور پھل کھاتے ہیں، جن جانوروں سے دودھ ، چمڑا اور گوشت حاصل کرتے ہیں اور جن جانوروں کو بوجھ ڈھونے اور سواری کے لئے استعمال کرتے ہیں ان میں سے ذیادہ تر مصنوعی انتخاب کے ذریعے عملِ ارتقاء کا نتیجہ ہیں۔مصنوعی انتخاب  میں انسان  اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ  جانوروں ، اناج ، سبزیوں اور پھلوں کی بہت ساری قسموں میں سے کن کی حوصلہ افزائی کرنی ہے اور کس کی نہیں ، اور کون سے دو علیحدہ علیحدہ خصوصیات رکھنے والے جانداروں سے دونوں خصوصیات رکھنے والا ایک جاندار حاصل کیاجائے۔ جن جانداروں کی انسان حوصلہ افزائی کرتے ہیں وہ ایک بڑی تعداد میں دستیاب ہوتی ہیں اور جن کی حوصلہ شکنی کرتےہیں وہ کمیاب اور بعض اوقات ناپید ہوجاتی ہیں، مثال کے طور پر گھوڑا جس کی جنگلی نسل تقریباً ناپید ہوچکی ہے جبکہ سدھائے ہوئے گھوڑے بڑی تعدام میں موجود ہیں۔اسی طرح انسان یہ بھی طے کرتے ہیں کہ کس طرح ایک خاصیت حاصل کرنے  کےلئے دو الگ الگ  خاصیت رکھنے والےجانداروں کا ملاپ کروایا جائے، مثال کے طور پرخرگوش کے شکار کے لئے  کتے کی وہیپٹ نامی نسل ، کتوں کی دو الگ نسلوں، تیز رفتار گرے ہاوَنڈ اور چھوٹے جانوروں کے شکار کے ماہر ٹیریئر کے ملاپ سے حاصل کی گئی۔ اسی طرح گندم، چاول ، سبزیوں اور پھلوں میں انسان کو جو قسم پسندآئی اسے کاشت کیا گیا اور مختلف قسموں کا ملاپ بھی کروایا گیا جس کے نتیجے میں آج ہماری خوراک میں شامل یہ چیزیں موجودہ شکل میں موجود ہیں ان میں سے کئی کی جنگلی قسمیں یا تو ناپید ہوچکی ہیں یاکمیاب۔

یہ تو تھا مصنوعی انتخاب کے ذریعے ارتقاء جو انسانی خواہشات پر چند ہزار سالوں کے دوران ہوا، لیکن کرہِ ارض پر حیاتیات کی لاکھوں قسمیں ہیں یہ سب کہاں سے آیا،  میدانوں میں چرنے والے  سبزخور جانور، انکا شکارکرنے والے گوشت خور جانور، آسمانوں میں اڑتے پرندے، سمندر میں تیرتی مچھلیاں اور سب سے بڑھ کر انسان ،کیا یہ سے الگ الگ تخلیق کیئے گئے تھے ؟ زمین پر حیاتیات کا تنوع{ڈائیورسٹی} اس قدر ہے کہ دیکھنے میں ایسی لگتا ہے کہ ہر چیز علیحدہ علیحدہ تخلیق کی گئی ہے، لیکن اگر ہم غور کریں تو اس زمین پر پھیلی اس افراتفری میں بھی یکسانیت کے نقوش واضح ہونے لگتے ہیں۔اس یکسانیت کو پانے کے لئے آپ کو کسی اعلیٰ پائے کا سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اپنے گرد پھیلی ہوئی مختلف اقسام کی حیاتیات  کے زرے سے مشاہدے سے ہی واضح ہو جائے گا  کہ زمین کے کونے کونے پھیلے ہوئے تمام جاندار آپس میں کتنے مماثل ہیں۔ مثال کے طور پر جسمانی بناوٹ کو ہی لیجئے ، ہواوَں میں اڑتے پرندےہوں یاجنگلوں میں گھومتے ہاتھی، جوہڑوں میں چھپے مگرمچھ ہوں یہ زمین کے قابل ترین انسان  ، تمام کے جسم میں پانچ بنیادی عضو واضح ہے یعنی سر، دھڑ، دو اوپری متحرک عضو{ہاتھ، پر اور چوپایوں میں سامنے کی ٹانگیں} اور نچلے متحرک عضو{پاوَں}۔یہ تو محض ایک مثال ہے  آپ زرا خود نظر دوڑائیں دنیا کے حیاتیات یکسانیت سے بھری پڑی ہے، اور حیاتیاتی تنوع میں محض یکسانیت ہی نہیں بلکہ اختلاف بھی ہے۔ ہمارے روزمرہ کا مشاہدے ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ مصنوعی انتخاب کے ذریعے سے جانداروں میں تبدیلیاں  پیدا کی جاسکتی ہیں لیکن یہ تبدیلیاں بہت بنیادی نہیں ہوتیں یعنی عمل ارتقاء بذریعہ  مصنوئی انتخاب سے کتوں کی انتہائی چھوڑی نسل شُواوا  اور انتہائی بڑی نسل بلڈ ہاوَنڈ تو پیدا کی جاسکتی ہے  لیکن وہ عمل ہے جس سے اس زمین پر بسنے والی ہر مخلوق وجود میں آئی اور اس میں تنوع آیا وہ عملِ ارتقاء بذریعہ قدرتی انتخاب کہلاتاہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مصنوعی انتخاب کے ذریعے انسان نے صرف چند ہزار سالوں میں کس قدر تبدیلیاں پیدا کرلیں ہیں ، زرا تصور کریں کروڑہا سالوں سے جاری قدرتی انتخاب کس قدر تبدیلی پیدا کرسکتا ہے؟ جواب ہے کرہِ ارض پر موجودتمام نباتات، حیوانات پرندے اور انسان۔

نظریہِ ارتقاء کو عموما چارلس ڈارون { ۱۸۰۹ تا ۱۸۸۲ }اور ان کی کتاب انواع کا آغاز {اوریجن آف اسپیشیز }سے منسلک کیا جاتا ہے لیکن نظریہ ارتقاء کوئی نیا نظریہ نہیں ہے، ہزاروں سال قبل کچھ یونانی سائنسدان نظریہ ارتقاء کو صحیح سمجھتے تھے، خود اسلامی تاریخ کے سنہری دور کے عظیم سائنسدانوں بشمول ابنِ مسکاوی، ابوریحان البیرونی، نصیر الدین طوسی اور ابنِ خلدون کہ نے ارتقائی نظریات پیش کئے ، حتیٰ کہ ایک سائنسدان ابنِ الجاحظ نے جانداروں کی زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کو قدرتی انتخاب کا ایک حصہ قرار دیا ، اس تمام تاریخ کے باوجود چارلس ڈارون وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس نظریے کہ اصول بیان کیے اور یہ بتایا کہ یہ عمل کس طرح کام کرتاہے، اسی لئے اس نظریے کو ڈارون کا نظریہ ارتقاء بھی کہاجاتا ہے ۔ ڈارون کی کتاب کے پہلے بار منظر عام پر آنے کے بعد آج ایک سو ترپن سال گذر چکے ہیں، نظریہ ارتقاء ایک مفروضہ سے شروع ہوا تھا اور آج ایک جھٹلائی نہ جاسکنے والی حقیقت میں تبدیل ہوچکا ہے، ڈارون کے پاس اس مفروضے کے حق میں محض چند دلائل تھے لیکن آج ہمارے پاس ناقابلِ تردید ثبوتوں کے انبار ہیں اس باوجود نظریہ ارتقاء کو پاکستان کے تعلیمی نصاب میں جائز مقام نہیں ملتا اور محض تعلیمی اور تعلیمی میدان سے باہر بھی اسی حقیقت کو بعض غیر متعلق لوگوں کی جانب سے جھوٹ قرار دیا جاتاہے، ایسے لوگوں کے طرف سے جن کا سائنس سے دور کا بھی تعلق نہیں، ایک سائنسی حقیقت کے بارے میں موجود ان غلط فہمیوں کو دیکھتے ہوئے ہی میں نے نظریہ ارتقاء پر مضامین لکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ اس سلسلے کا پہلا مضمون ہے، میں امید کرتا ہوں کہ یہ مضامین نظریہ ارتقاء کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد گار ہوں گے۔


{میری آپ قارئین سے محض ایک درخواست ہے کہ ان مضامین کو سوشل نیٹ ورک پر ذیادہ سے ذیادہ شیئر کریں تاکہ تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں اوراگر آپ کو مضمون سے متعلق کوئی سوال کرنا ہو تو  تبصروں کے ذریعے مجھے بھیجئے جن کا جواب میں اگلی تحریر میں دینے کی بھرپور کوشش کروں گا۔}


Friday 24 February 2012

اسلامی تاریخ میں سائنس کا عروج و زوال


ڈاکٹر نیل ڈیگراس ٹائیسن


 

تاریخِ انسانی کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں ایسے ادوار آتے ہیں جن میں ان کے یہاں مختلف علوم میں بے مثال ترقی ہوتی ہے، ہم قوموں کے اس دور کا جائزہ لیکر   معلوم کرسکتے ہیں کہ وہ کونسی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے علمی ترقی کا یہ دور شروع ہوا ور اس علمی ترقی کے اختتام کی کیا وجوہات تھیں۔ میں ایسے ادوار کو نام رکھنے کے حق کا دور کہتاہوں، مثال کے طور پر اگر آپ کوئی نئی چیز دریافت کرکے ہیں یا نئی دریافت کا سب سے پہلے اوربہترین استعمال کرتے ہیں تو  اسکا نام  رکھنے کا موقع بھی آپ ہی کو ملتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکا میں ذراتی طبعیات {پارٹیکل فزکس } نے بہت ترقی کی یہی وجہ ہےکہ ہمیں برکیلیم اور کیلیفورنیم جیسے  عناصر کے نام ملتے ہیں،  بھاری عناصر میں سے آدھے سےذیادہ کے نام ہم نے رکھے ہیں اسکی وجہ یہ نہیں ہے کہ دنیا کو کیلی فورنیا یا برکلے  سے کوئی لگاوَ تھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ہم نے دریافت کیا تھا۔ نام رکھنے کے اس حق کا یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ آپ کو نام رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی مثال کے طور پر ہم نے انٹرنیٹ کو گوکہ ایجاد نہیں کیا لیکن ہم نے اس کو عام کیا اور اس کا بہترین استعمال کیا یہی وجہ ہے کہ آج آپ کی ای میل ڈاٹ یو ایس رکھنے والے ان باکس میں نہیں جاتی جبکہ دیگر ممالک میں عموما ای میل پتے میں ملک کا نام بھی آتاہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ برطانونی ڈاک ٹکٹ دنیا میں واحد ڈاک ٹکٹ ہیں جن پر ملک کا نام درج نہیں ہوتا کیوں کہ ڈاک ٹکٹ خود برطانوی ایجاد ہے تو انہیں کیا ضرورت ہے اس پر نام لکھنے کی۔ رات کو دکھائی دینے والے ستاروں کے جھرمٹوں کے یونانی اور لاطینی ذبانوں میں رکھے گئے اور انہیں آج بھی انہی ناموں سے پکارا جاتاہے۔

گیارہ ستمبر کو دہشتگروں کے امریکہ پر حملے کےچند دن  بعد صدر جارج بش نے دہشتگردوں اور ہمارے درمیان فرق وضح کرنے کے لئے انجیل سے ایک حوالہ دیا کہ "ہمارا خدا وہ خدا ہے جس نے ستاروں کو ان کے نام دیئے"، یاد رہے کہ یہ میری بش انتظامیہ کے ساتھ کام شروع کرنے سے پہلے کی بات ہے کیونکہ اگر میں وہاں ہوتا تو حقیقت معلوم کرنے میں ان کے مدد کرسکتا تھا۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ستاروں کے جھرمٹوں کے نام تو یونانی اور لاطینی میں ہے لیکن جن ستاروں کو نام دیئے گئے ہیں ان کی اکثریت کا نام عربی ذبان میں ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ستاروں کے نام عربی میں کیوں ہیں؟وجہ یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں سن آٹھ سو عیسوی سے گیارہ سو عیسوی تک کا دور علمی لحاظ سے  انتہائی زرخیز دور تھا، اس  تین سو سالہ دور میں جب پورا یورپ مرتدوں کو ٹھکانے لگانے میں مصروف تھا،  بغداد دنیا بھر میں  مرکزِ علم و دانش تھا۔

سن آٹھ سے صدی عیسوی کا بغداد دنیا بھر میں علم ودانش کا مرکز کیسے بنا اس کی وجوہا ت جاننے کے لئے جب ہم اس دور کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ اس دور میں بغداد بلاتفریقِ رنگ و نسل ہر موضوع پر علم رکھنے والوں کے لئے کھلاتھا، مسلمان، عیسائی ، یہودی اور دہریے سب ایک ہی شہرمیں علم اور نظریات کا تبادلہ کررہے تھے۔یہ وہ دور تھا جس میں بنی نوع انسان نے  انجینئرنگ، حیاتیات، طب اور ریاضی میں ذبردست ترقی کی، آج ہم جو جدید ہندسے استعمال کرتے ہیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ انہیں کیا کہا جاتا ہے؟ انہیں عربی ہندسےکہا جاتاہے،  آخر  یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ  جدید ہندسے جنہیں روز ہم استعمال کرتے ہیں عربی ہندسے  کہلاتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ  اس دور کے مسلم ریاضی دانوں نے صفر کی ایجاد سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے  ریاضی کی ایک نئی شاخ الجبراء تخلیق کی، خود الجبراء ایک عربی نام ہے ، الگورتھم ایک عربی نام ہے۔اس دورمیں خوربصورت اور درست آسٹرولیب بنائے گئے اس آلہ کو مختلف فلکیاتی پیمائش سرانجام دینے والا ایک دستی کمپیوٹر کہاجاسکتاہے۔آج کے کئی جدید علوم مثال کے طور پر ریاضی اور فلک پیمائی  {سیلسٹیل نیویگیشن} کی جڑیں اس دور سے جاملتی ہیں۔

لیکن اس سنہری دور کے بعد کچھ ایسا ہوا جس نے اسلامی دنیا کو ترقیِ معکوس کے سفر پر ڈال دیا، ویسے تو اس ترقی معکوس کی وجہ سقوطِ بغداد کو بھی کہا جاتا ہےلیکن بغداد کے بعد اسلامی تہذیب پھر کھڑی ہوئی لیکن اس بار علمی ترقی بغداد کےان  تین سوسال کے مقابلے میں کچھ نہیں تھی۔ ایسا کیوں  ہوا؟ جبکہ علمی ترقی مسلمانوں کا تہذیبی ورثہ تھا تو کیوں وہ دوبارہ ایسا کرنے میں ناکام رہے؟ اگر ہم اس معاملے کی مزید گہرائی میں جائیں تو  معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں حامد الغزالی نامی ایک مذہبی عالم تھاجس کا اسلام میں وہی کردار تھا جو کہ عیسائیت میں سینٹ آگسٹین کا ہے۔جس طرح سینٹ آگسٹین نے کتاب لکھی کہ اصل اور اچھا عیسائی کیسے بنا جاتاہے اسی طرح حامد الغزالی نے مسلمانوں کو اچھا اور اصل مسلمان بنے کا طریقے بتائے، اپنی انہیں تصانیف میں الغزالی نے ایک اصول جسے پہلے معاشرتی اور پھر سیاسی پذیرائی ملی ، لکھا کہ ریاضی اور اعداد کا یہ کھیل ایک شیطانی کام ہے، محض اس ایک اصول سے اسلام میں علمی ترقی کے بنیاد ڈھ جس کی آج تک تلافی نہیں ہوسکی۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہودیوں نے آج تک کتنے نوبیل انعام برائے سائنس جیتے ہیں؟ یہ تعداد سائنس پر دئیے گئے کل نوبیل انعاموں کا ایک چوتھائی ہے  اور دنیا میں ذیادہ سے ذیادہ  پندرہ ملین یہودی ہونگے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آج تک کتنے مسلمانوں کو سائنس پر نوبیل انعام ملا ہے؟ محض ایک کو اور وہ  بھی مشرقِ وسطیٰ کے عرب مسلمان کو نہیں بلکہ ایک پاکستانی سائنسدان عبدالسلام کو اور دنیا میں ایک اعشاریہ تین ارب مسلمان رہتے ہیں، ذرا تصورکیجئے کہ اگر آج مسلمانوں میں علمی ترقی کا سفر جاری رہتا تو آبادی کے تناسب سے اگر دیکھا جائے تو آج سائنس کا ہر ایک نوبیل انعام کسی مسلمان کو ملتا۔اگر سن گیارہ سو  عیسوی میں الحام تحقیق پر غالب نہ آتا توکس قدر قابلیت پچھلے ایک ہزار سال میں اپنا اظہار کرسکتی تھی جو کہ نہ کرسکی۔




{یہ تحریر امریکی ماہرِ فلکی طبعیات  اور نیویارک شہر میں واقع ہیڈن پلانیٹیریم  کے ڈائریکٹر ڈاکٹرنیل ڈیگراس ٹائسن کی جون دوہزار دس میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں منعقد ہونے والے سائنس کیفے میں کی گئی گفتگو سے اخذ کی گئی ہے۔}

نوٹ۔ آسٹرولیب اسلامی دور کی ایجاد تو نہیں لیکن انہیں اس زمانے میں ان کا بھرپور استعمال کیا گیا اور ان کو مزید درست بنایا گیا۔


Saturday 18 February 2012

امریکی بل آف رائٹس


بل آف رائٹس دراصل امریکی آئین میں کی گئی پہلی دس ترامیم کے مجموعے کو کہتے ہیں،ان ترامیم کو امریکی آئین میں خاص اہمیت حاصل ہے، یہ ترامیم عوام کے ان حقوق کو بیان کرتیں ہیں جوکہ حکومت کسی صورت افراد سے چھین نہیں سکتی ۔ سن سترہ سو ستاسی پہلی آئین سازی کے بعدکچھ قانون سازوں نے محسوس کیا کہ آئین میں افراد کے ذاتی حقوق کی حفاظت کے لئے ایک حقوق نامہ ہونا چاہیئے کیونکہ موجودہ آئین یہ تو بتاتا ہے کہ حکومت کی کیا ذمہ داریاں ہیں لیکن یہ نہیں بتا تا کہ حکومت عوام کے خلاف کیا اقدامات نہیں کرسکتی، یہ قانون ساز نہیں چاہتے تھے کے شاہِ برطانیہ سے آزادی حاصل کر نے کہ بعد شخصی آزادی کو ایک قوی مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں دے دی جائے، اسی لئے اس وقت کی کل تیرہ ریاستوں میں سے اکثر نے آئین پر دستخط کرنے سے انکار کردیا لیکن بعد میں آئین میں ترامیم کے وعدے پر دستخط کردیئے۔پہلے امریکی ایوانِ نمائندہ گان کو آئین میں ترامیم کا کام سونپا گیا جو کہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ تمام ریاستوں نے مجموعی طور پر دوسو تجاویز ایوانِ نمائندہ گان کو دیں تھیں جن میں سے انیس کو قائدِ ایوان جیمز میڈیسن نےایون میں منظوری کے لئے پیش کیا جس میں سے صرف بارہ ہی منتخب ہوپائیں جبکہ ان میں سے بھی دو کو سینٹ میں رد کردیا گیااس طرح پندرہ دسمبر سترہ سو اکانوے کو یہ دس ترامیم امریکی آئین کا حصہ بنیں۔

 حقوق نامہ

پہلی ترمیم۔ کانگریس کوئی ایسی قانون سازی نہیں کرے، جس کے ذریعے{ریاست میں } مذہب کا نفاذ کیا جائے، یا اسکی آزادانہ پیروی پر پابندی عائد کی جائے۔اسی طرح؛ آزادیِ اظہار، یا آزادیِ طباعت، یا عوام کا حقِ پرامن اجتماع، اور شکایات کے ازالے کے لئے حکومت سے درخواست کے حق کو محدود نہیں کیا جائے۔

 دوسری ترمیم۔ ایک اچھی منظم ملیشیا، چونکہ ایک آزاد ریاست کے تحفظ کے لئے ضروری ہے، {اس لئے} عوام کے ہتھیار رکھنے کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے۔

تیسری ترمیم۔کوئی سپاہی ، زمانہِ امن میں کسی گھر کو بناء مالک کی رضامندی کہ استعمال نہیں کرے ، نہ ہی زمانہِ جنگ میں مگر اس طریقے سے جو قانون میں تجویز کیا گیا ہو۔

 چوتھی ترمیم۔عوام کے اس حق کہ انکی جان ، گھر ، دستاویز ات اور مال و اسباب کو بناء معقول وجہ کے تلاشی اور ضبطی سے تحفظ حاصل ہو، کی خلاف ورزی نہیں کی جائے۔کوئی وارنٹ جاری نہیں کیا جائے گا مگر معقول دلائل پر ، حلف اور توثیق کے سہارے ، اور تلاشی کی جگہ، مطلوب شخص اور قابلِ ضبطی شے کی خصوصی وضاحت کے ساتھ ۔

پانچویں ترمیم۔کسی شخص کو قابلِ سزائے موت ،یا کسی اور سنگین جرم کا ملزم تصور نہیں کیا جائیگا تاوقتیکہ ایک بڑی جیوری کی جانب سے باقاعدہ فرد جرم عائد کی جائے یا رائے دی جائے۔، ماسوائے ان مقدمات کہ جو بری یا بحری افواج میں سامنے آئیں، یا ملیشیا میں ، جبکہ وہ زمانہ جنگ یا عوامی مشکلات کے دوران خدمات میں مصروف ہوں۔ کسی شخص پر ایک ہی الزام کے تحت دوبار{ مقدمہ چلاکر} اسکی جان و مال کو خطرے میں نہیں ڈالا جائے ؛ ناہی کسی فوجداری مقدمے میں {ملزم کو} خود اپنے خلاف گواہ بننے پر مجبور کیا جائے گا ؛ بغیر مناسب قانونی چارہ جوئی کے زندگی، آزادی یا ملکیت سے محروم نہیں کیا جائے ؛ نجی ملکیت کو عوامی استعمال کے لئے بناء زرِ تلافی حاصل نہیں کیا جائے۔

چھٹی ترمیم۔ فوجداری مقدمات میں استغاثہ کی کاروائی کے دوران ملزم کو ایک تیز اور کھلی سماعت کا حق حاصل ہوگا، غیر جانبدار جیوری کی جانب سے ،اسی ریاست اور ضلع میں جہاں جرم ہوا تھا، جہاں ضلع پہلے ہی سے قانونی طور پر اس امر کو یقینی بنائے گا کہ؛ {ملزم کو}، الزامات کی نوعیت اور وجوہات سے آگاہ کیا جائے، اسکو مخالف گواہوں کا سامنا کرنے کا موقع دیا جائے، اپنے حق میں گواہیاں حاصل کرنےکے لئے ضروری کاروائی کرنے دی جائے، اور اپنے دفاع کے لئے وکیل کرنے دیا جائے۔

ساتویں ترمیم۔دیوانی مقدمات میں، جہاں رقوم متنازع ہوں ان میں بیس ڈالر کا اضافہ کیا جائے، جیوری کے ذریعے مقدمے کی سماعت کے حق کو محفوظ رکھا جائے، ایسی حقیقتیں جن پر جیوری نے بات نہ کی ہو، کو دیوانی قوانین کے مطابق ریاستہائے متحدہ کی کسی بھی عدالت میں دوبارہ جانچا جائے۔

آٹھویں ترمیم۔ضرورت سےذیادہ زرِ ضمانت طلب نہ کیا جائے؛ ضرورت سے ذیادہ جرمانے عائد نہ کیے جائیں؛ ظالمانہ اور غیر معمولی سزائیں نہ دی جائیں۔

نوویں ترمیم۔ مخصوص حقوق کا آئین میں اندراج سے یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ عوام کی دیگر{حقوق نامےسے ماوراء} حقوق سے انکار یا انہیں کم کیا جاسکتاہے۔

دسویں ترمیم۔ وہ اختیارات جو آئین کے ذریعے ریاستہائے متحدہ کو تفویض نہیں کیے گئے، اور نا ہی اس {آئین }کےذریعے ریاستوں کے لئے ممنوعہ قرار دیئے گئے ہیں ، بالترتیب ریاستوں اور عوام کے پاس محفوظ ہیں۔

نوٹ۔ یہ ترجمہ میں نے فیصل سعید المطار کے بلاگ کے لئے کیا تھا جہاں امریکی حقوق نامہ اٹھارہ زبانوں میں موجود ہے۔ 

Saturday 4 February 2012

کریب نبیولا



کریب نبیولا کی ہبل ٹیلی اسکوپ سے لی گئی تصویر


{ویسے تو آج فلمستان کے لئے ایک اور ریویو لکھنے کا ارادہ تھا، سابقہ تجربے کہ بعد توسائنسی موضوعات پرہی  لکھنے کا  ارادہ نہیں تھا۔ لیکن ہماری چھوٹی بہن نے جب آج ہمیں فون کیا اور سوال کیا کہ فلکیات پر اردو میں کوئی بہترین کتاب مل سکتی ہے کیا؟ میرا جواب نفی میں تھا۔ دراصل اچھی کتاب کیا میں تو اردو میں فلکیات کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں دیکھی البتہ فلکیات کے نام پر جعلی سائنس یعنی علم نجوم پر کئی کتاب مل جاتی ہیں، تو پھر میں نے سوچا کیوں نہ  اردو میں خود ہی کچھ دلچسپ لکھا جائے،اسی لئے میں نے کریب نبیولا کو موضوع کیونکہ میرے خیال ہےکہ کائنات میں رنگ بکھیرتے اور دلچسپ شکلیں بناتے نبیولا سے ذیادہ خوبصورت اور کوئی چیز نہیں۔}

پرانے وقتوں میں شمالی امریکہ میں سرخ ہندی قوم کا ایناسازی نامی قبیلہ رہا کرتا تھاجو کہ پہاڑوں کو تراش کر اور گارے کے ساتھ گھر بناکر رہا کرتے تھے، پرانے وقتوں کی دوسری قوموں کی طرح ایناسازی بھی ستاروں پر نظر رکھا ، زمانہ قدیم میں ستاروں کہ بارے میں یہ نظریہ عام تھا کہ یہ ہمیشہ یکساں رہتے ہیں لیکن چارجولائی ۱۰۵۴ کو ایناسازی لوگوں نے آسمان پر ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ برج ثور میں جسے ایک خیالی بیل سے تشبیہ دی جاتی ہے، میں ایک نیا انتہائی چمکدار ستارہ نمودار ہوا، اس ستارے کی روشنی اس قدر تھی کہ اس کی روشنی میں رات کو پڑھا جاسکتا تھااور ہفتوں تک یہ ستارہ دن کی روشنی میں بھی نظر آتا تھا، ان لوگوں میں ہی سے کسی اس ستارے کی تصویر ایک پہاڑ پر بنادی جوکہ آج ایک ہزار سال کہ بعد بھی موجود ہے۔ ہزاروں میل دور چین میں فلکیات دانوں نے بھی اس نئے ستارے کو دیکھا جسے انہوں نے مہمان ستارے کا نام دیا۔ یہ نیا ستارہ کیاتھا؟ آج ہم اس جگہ کو جہاں یہ ستارہ دیکھا گیا تھا، کریب نبیولا کا نام دیتے ہیں ، یہاں گردغبار کا ایک عظیم بادل ہے جوکہ ایک ستارے کا ملبہ ہے جس نے خود کو ایک زبردست دھماکہ سے تباہ کرلیاتھا۔


ایناسازی لوگوں کی بنائی ہوئی تصویر


سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ نبیولا کیا ہوتے ہیں؟؟ نبیولا لاطینی ذبان جس کے معنیٰ ہیں بادل اوردراصل نبیولاگیس اور گردغبار کے  بادل ہی ہوتے ہیں لیکن زمین سے ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر اور کئی نوری سال پر پھیلے ہوئے، اکثر نبیولا دراصل ستاروں کی پیدائش گاہ ہوتے ہیں مثال کہ طور پر  ذمین سے دکھائی دینے والا پندرہ سو نوری سال  دور واقع  اورائین نبیولا،  یا ایک اور مثال ایگل نبیولا بھی ہے جس کی تصویر"تخلیق کے ستون"ہبل دوربین سے کھنچی گئی سب سے خوبصورت تصویر مانی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کریب نبیولا کے بادل ایک ستارے کے دھماکے سے فناء ہونے کے باعث وجود میں آئے ہیں، ایسے عظیم دھماکے کو سپر نوا کہاجاتاہے{ہر ستارہ ایک عظیم دھماکہ سے فناء نہیں ہوا کرتا ، ستاروں کی پیدائش اور موت کےبارے میں پوسٹ بہت جلد}۔یہ وہ واحد سپر نوا ہے جس کا ذکر انسانی تاریخ میں ملتا ہے اور اس کے بعد کوئی سپر نوا زمین سے نہیں دیکھی گئی۔



"تخلیق کے ستون"

۱۷۵۸ میں چارلس میزیئر نامی فرانسیسی فلکیات دان نے خلاء میں ایسی اشیاء کی فہرست مرتب کی جن پر شہابیہ ہونے کا دھوکہ ہوتا تھا لیکن وہ شہابیے نہیں تھے، کریب نبیولا اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اسے ایم ۔ون کا نمبر دیا گیا جسے آج بھی استعمال کیا جاتاہے۔  سن ۱۸۴۴  میں برطانوی فلکیات دان اور راس کے تیسرے نواب ولیم پارسنز نے اپنے مشاہدے پر مبنی کریب نبیولا کا ایک خاکہ بنایا کسی حد تک کیکڑے سے مشابہت رکھتا تھا ، اسی بناء پر اس کا نام کریب نبیولا رکھاگیا۔کریب نبیولا واحد سپرنوا کی باقیات ہے جسے عام سی ٹیلی اسکوپ سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن عام ٹیلی اسکوپ سے دیکھنے پر گردوغبار کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نظر آتا ہےلیکن اس کی اصل خوبصورتی بڑی ٹیلی اسکوپ استعمال کرکے دیکھا جاسکتی خصوصا ہبل ٹیلی اسکوپ سے لی گئی تصاویر  تو باکمال ہیں۔


ولیم پارسنز کا خاکہ 

گردوغبار کے اس وسیع بادل کے وسط میں ایک پلسار موجود ہے، پلسار ایک نیوٹران ستارہ ہوتا ہے جوکہ تباہ ہوئےستارے کا انتہائی کثیف اور انتہائی مقناطیسی  مرکزہ ہوتا جو تباہ ہونے سے بچ جایا کرتا ہے۔ پلسار اپنے آپ میں ایک انتہائی دلچسپ چیز ہوتے ہیں ، یہ انتہائی بھاری ہوتے ہیں ایک چائے کا چمچ پلسار کا وزن زمین پر بسنے والے کل سات ارب انسانوں کے مجموعی وزن کے کم و بیش برار ہوا کرتاہے، لیکن پلسار کی سب سے بڑی پہچان ان کا کسی لائٹ ہاوَس کی طرح روشنی کی دو شعائیں خارج کرنا ہے، ۱۹۶۷ میں دریافت ہونے والے پہلے پلسارکو اپنی انہیں شعاوَں کے باعث کسی ایلین تہذیب کا نشان سمجھا گیا تھا ۔


پلسار ایک خاکہ


پلسار اپنے محور کے گرد بہت تیزی چکر لگایا کر تے ہیں، زمین اپنے محور کے گرد ایک چکر ۲۴ گھنٹے میں مکمل کرتی ہے جبکہ کائنات میں ایسے بھی پلسار ہیں جو کہ ایک سیکنڈ میں تین سو چکرمکمل کرتے ہیں۔کریب نبیولا میں موجود پلسار جسے کریب پلسار کہا جوتا ہے محض اٹھائیس کلومیٹر قطر رکھتا ہے اور اپنے محور کے گرد ایک سیکنڈ میں تینتیس چکر لگاتاہےیہ زمین تک پہچنے والی گیما شعاوَں کا سب سے بڑا ماخذ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایک ریڈیو ٹیلی اسکوپ سے پلسار کو سنا بھی جاسکتا ہے۔


کریب پلسار کی آواز

ہمارے گرد پھیلی ہوئی اس وسیع کائنات میں ہرلمحے تبدیلی کا عمل جاری ہے ، ہم انسانوں کی زندگی کائنا ت میں تبدیلی کی رفتار کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں اسی لئے ہمیں کائنات منجمد لگتی ہے مگر اگرہم واقعی ایک بہت لمبے عرصے تک مشاہدہ کریں تو ہرچیز تبدیل ہوجائےگی۔کائنات میں ہروقت تعمیر اور تباہی کا عمل جاری ہے اور شاید اسی عمل کو دیکھتے ہوئے اقبال نے کہا تھا کہ۔

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون

Thursday 2 February 2012

کیا ناممکن واقعی ناممکن ہے؟

ڈاکٹر میشیوکاکو




میں نے بطور طبعیات دان یہ سیکھا ہے کہ ناممکن ایک غیر جمامع  اصطلاح ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہماری ایک استانی نے دیوار پر لگے ہوئے دنیاکے نقشے میں جنوبی امریکی اور افریقی ساحلی پٹی کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ یہ دونوں ساحلی پٹیاں باہم ایسی ٹھیک بیٹھتی  ہیں کہ جیسے ایک پزل کا حصہ ہوں، کچھ سائنسدانوں کا یہ اندازہ ہے کہ شاید یہ دونوں کبھی ایک عظیم ترین براعظم کا حصہ تھے ، کیسی بیوقوفانہ بات ہے ، کوئی طاقت ایسی نہیں جو دوبراعظموں کو چیر کر  الگ الگ کردے۔ کچھ عرصے بعد اسی سال ہم نے ڈائنوسارز کے بارے میں پڑھا، کیا یہ عجیب بات نہیں ہے؟؟ ہمارے استاد نے ہم سے سوال کیا، کہ ڈائنوسارز نے زمین پر دسیوں لاکھ سال حکمرانی کی اور ایک دن وہ تمام غائب ہوگئے؟؟ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ وہ تمام کیوں مارے گئے۔کچھ ماہرینِ رکازیات {پالےآنٹولوجسٹ}سوچتے ہیں کہ شاید خلاء سے آنے والاکوئی شہاب ثاقب ان کی ہلاکت کا باعث بنا، لیکن یہ ناممکن ہے اور حقیقت کے بجائے تخیل ہے۔

آج ہمیں معلوم ہے کہ پلیٹ ٹیکٹانکس کے باعث براعظم درحقیقت کھسکتے ہیں، اور پینسٹھ ملین سال قبل ایک چھ میل طویل عظیم شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا ، غالب امکان یہی ہے کہ اس کی وجہ سے ڈائنوسارز کا خاتمہ ہوا۔ میں نے خود اپنی زندگی میں بار بار ناممکنات کو تسلیم شدہ سائنسی حقیقت بنتے دیکھا ہےتو کیا  پھر ایسا سوچنا غلط ہے کہ ایک دن ہم اپنے آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹیلی پورٹ کرنے کے قابل ہوجائیں گے، یا  ہم ایسے خلائی جہاز بنا سکیں گے جوہیں کئی نوری سال دور ستاروں تک پہنچاسکیں؟۔

ایسے کام جو عمومی طور پر آج کے طبعیات دانوں کے نزدیک ناممکنات ہیں ، کیایہ ممکن ہے کہ چند صدیوں میں ان کا شمار ممکنات میں ہونے لگے؟یا دس ہزار سالوں میں جب ہماری ٹیکنالوجی مزید جدید ہوگی؟ اگر دوسرے الفاظ میں کہیں تو، اگر آج کسی طرح ہماری ملاقات اپنے سے دس لاکھ سال جدید تہذیب سے ہوجاتی ہے تو کیا ان کی روزمرہ کی ٹیکنالوجی ہمیں جادوئی لگے گی؟یہ وہ سوال ہے جو اس کتاب کا مرکزی موضوع ہے۔محض اس لئے کہ آج ایک چیز ناممکن ہے، کیا وہ آنے والے سینکڑوں یا لاکھوں سالوں میں بھی ناممکن رہے گی؟

گزشتہ صدی کی سائنسی ترقی خصوصا نظریہ کوانٹم طبعیات اور نظریہ عمومی اضافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے  یہ اب ممکن ہے کہ ہم ایک اندازہ لگا سکیں کہ کب، اگرممکن ہوا تو ،ایسی حیرت انگیز ٹیکنالوجی حقیقت بن سکے گی۔اسٹرنگ تھیوری جیسے جدید تر نظریے کے آنے بعد تو سائنس اور تخیل کی سرحد پر موجود ، وقت میں سفر اور متوازی کائنات جیسے تصورات  کو بھی طبعیات دانوں نے نئی نظر سے پرکھنا شروع کردیاہے۔ذرا ڈیڑھ سو سال قبل کا تصور کریں، ایسی ٹیکنالوجیکل ترقی جو اس وقت کے سائنسدانوں نے ناممکن قرار دی تھی اجکل ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ اٹھارہ سو تریسٹھ میں یولیس ورنے کا ناول "بیسویں صدی کا پیرس" ناشر مقفل کرکے بھول گیا جو کہ بعد ازاں اس کے پڑپوتے کو انیس سو چورانوے میں ملا اور اس نے اسےشائع کیا۔ناول کا تخیلاتی پیرس انیس سے ساٹھ کی اصل پیرس سے مماثلت رکھتا تھا، اس ناول میں ایسی کئی ایجادات کا ذکر ہے جنہیں اس زمانے میں ناممکن تصور کیا جاتا تھاجن میں فیکس مشین، بین الاقوامی مواصلاتی نظام، شیشے کی بنی فلگ شگاف عمارتیں، ایدھن سے چلنے والی گاڑیاں اور تیز رفتار ریل گاڑیاں شامل ہیں ۔ ورنے کی یہ کامیاب پیشنگوئیاں کوئی حیران کن امر نہیں ہے، ورنے سائنس کو سمجھتا تھا اپنے دور کے سائنسدانوں سے معلومات حاصل کرتا رہتا تھا،بنیادی سائنس کا یہ علم اس کے ان کامیاب پیشنگوئیوں کا سبب بنا۔

مایوسی کی بات یہ ہے کہ  سے انیسویں صدی کے کچھ عظیم ترین سائنسدانوں نے مخالف رائے اختیار کی اورکئی ٹیکنالوجیز کو ناممکن قرار دیا۔ وکٹورین دور کے غالبا سب سے ممتاز طبعیات دان لارڈ کیل ون{ان کی آخری آرامگاہ ویسٹ منسٹر ایبی میں سرآئزک نیوٹن کے پہلو میں ہے}، نے ہوا سے بھاری تمام اختراعات {ہوائی جہاز وغیرہ ۔مترجم}کو ناممکن قرار دیا تھا، ان کے نزدیک ایکس رے ایک فریب جبکہ ریڈیو کا کوئی مستقبل نہ تھا۔  ایٹم کا نیوکلیئس دریافت کرنے والے لارڈ راتھرفورڈنےنہ   صرف ایٹم بم کی تیاری کو ناممکن قرار دیا تھابلکہ اس کے تیاری کے عمل کو کچی شراب کی تیاری کے مترادف قرار دیکر اسکامذاق بھی اڑایا تھا۔
انیسویں صدی کے کیمیاء دانوں نے پارس پتھر {ایک ایسی افسانوی شے جو سیسے کو سونے میں تبدیل کردے}کو سائنسی اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا لیکن انیسویں صدی کی کیمیاء دانی عناصر کے بنیادی عدم تغیرکے اصول پرمبنی تھی، ہم اب آج کل کی ایٹم توڑ مشینیں استعمال کرکے نظری طور پر سیسے کے ایٹم کو سونے میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ذرا سوچئے موجودہ زمانے کے ٹی وی، کمپیوٹر،اور انٹرنیٹ بیسویں صدی کے آغاز میں کیسے شاندار اور ناقابل یقین لگتے۔
ماضی قریب میں جھانکیں توبلیک ہولز کبھی سائنسی تخیل مانے جاتے تھے، خود آئن اسٹائین نے انیس سو انتالیس میں ایک مقالہ لکھتا تھا جس میں انہوں نے"ثابت "کیا تھا کہ بلیک ہولز کبھی نہیں بن سکتےمگر آج ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ اورچندرا ایکس رے ٹیلی اسکوپ خلاء میں ہزاروں بلیک ہولز دریافت کرچکیں ہیں۔اس ٹیکنالوجیکل جدت کو ناممکنات سمجھنے کی اصل  وجہ انیسویں صدی حتیٰ کہ بیسویں کے شروع میں طبعیات اور سائنس کے بنیادی اصولوں کے علم کا فقدان تھا، اگر اس ذمانے میں ہمارے سائنسی علم و فہم میں، خصوصا ایٹمی سطح پر موجود خلاء  کو مدنظر رکھا جائےتو ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیئے کہ ٹیکنالوجیکل جدت کو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ناممکنات پرسنجیدگی سے تحقیق سائنسدانوں کو بارہا  سائنس کی ایک بلکل غیر متوقع اور نئی شاخ پر تک لے گئی ہے، مثال کے طور پرصدیوں کی بے ثمر اور مایوس کن تلاش کے بعد طبعیات  دان اس نتیجے پر پہنچے کہ "پرپیچول موشن مشین" {ایک ایسی مشین جوچلنے کے لئے جتنی توانائی استعمال کرے چلتے وقت اتنی ہی یا اس سے زائد توانائی پیدا بھی کرے، دوسرے الفاظ میں ایک بار حرکت میں آنے کے بعد ہمیشہ حرکت میں رہے۔ مترجم}بنانا   ناممکن ہےلیکن اس ناکامی سے سائنسدانوں نے  قانون بقائے توانائی{کنزرویشن آف انرجی}  اور حر حرکیات  {تھرموڈائنامکس }کے تین قانون سیکھے چناچہ ایک بے ثمر تلاش نے سائنس کی بلکل نئی شاخ حرحرکیات کی بنیاد رکھی  جس نے جزوی طور پر بھاپ کے انجن کی بنیاد فراہم کی  اور وسیع تناظر میں مشینی دور اور جدید انڈسٹریل تہذیب کی بنیاد رکھی۔

انیسویں صدی کے آخر میں سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ یہ ناممکن ہے کہ زمین کی عمر اربوں سال ہے، لارڈ کیل ون نے اعلان کیا کہ زمین کا پگھلی ہوئی حالت سے اسکے ٹھنڈے ہونے میں محض بیس سے چالیس ملین سال لگے ہوں گے یہ دعویٰ  ماہرین ارضیات اور ڈاروینین ماہرین حیاتیات کہ دعوے کہ زمین کی عمر اربوں سال ہے سے متصادم تھا لیکن یہ ناممکن بھی بلاخر مادام کیوری و دیگر کی دریافت جوہری طاقت {نیوکلیئر فورس} کے منظر عام پر آتے ہیں ممکن ثابت ہوگیا، جوہری طاقت نے ثابت کیا کہ زمین کا مرکز  کس طرح تابکاری {ریڈیو ایکٹیو ڈیکے }کے باعث اربوں سال تک گرم ایک پگھلاہوا  رہ سکتا ہے۔
ہم ناممکن کو اپنے  اندیشوں کی بناء پر نظر انداز کرتے ہیں۔انیس سو بیس تا انیس سو تیس ، جدید راکٹ سائنس کے بانی رابرٹ گوڈارڈ شدید تنقید کی زد میں تھے ان لوگوں کی جانب سے جن کہ نزدیک راکٹ کبھی خلاء تک سفر نہیں کرسکتاتھا، وہ اس  کے خواب کو تنزیہ گوڈراڈ کی حماقت کا نام دیتے تھے۔انیس سو اکیس میں نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹر نے ڈاکٹر گوڈراڈ کے کام کو آڑے ہاتھو ں لیتے ہوئے لکھا کہ "پروفیسر گوڈراڈ غالبا عمل اور رد عمل کے درمیان رشتے سے ناواقف ہیں انہیں راکٹ کو خلاء سے بہتر کسی شے کی ضرورت ہوگی جس کہ خلاف وہ ردِعمل کرسکے انہیں شاید وہ بنیادی علم بھی نہیں جو آج کل ہائی اسکولوں میں بانٹی جارہا ہے"۔راکٹ کی پرواز ممکن ہیں نہیں ہے ، ایڈیٹر صاحب نے لکھا، کیوں خلاء میں ہوا موجود ہی نہیں جسے دکھیل کر راکٹ آگے بڑھ سکے۔بدقسمتی سے  محض ایک سربراہ مملکت گوڈاراڈ کہ "ناممکن " راکٹ کی حقیقت کو جان سکا اور وہ تھا ایڈولف ہٹلر، دوسری جنگ عظیم کے دوران جدید جرمن وی۔۲ راکٹ اپنے اندر موت اور تباہی لئے لندن  پر برسے اور اسے تقریبا گھنٹوں پر جھکادیا۔

ناممکنات پر تحقیق ہماری دنیا کی تاریخ بھی بدل سکتی ہے، انیس سو تیس میں ذیادہ تر سائنسدان بشمول البرٹ آئن اسٹائن کے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایٹم بم بنانا ممکن نہیں ، طبعیات دان جانتے تھے کہ آئن اسٹائن کی مشہور ترین مساوت {توانائی ، کمیت مساوت }کے مطابق ایٹم کے نیوکلیئس میں ایک عظیم توانائی چھپی ہے  لیکن محض ایک ایٹم حاصل ہونے والی حقیرتوانائی کسی طور کارگر نہ تھی لیکن ایٹمی طبعیات دان لیو سلارڈ کو انیس سو چودا میں شائع ہونے والا ایچ جی ویلز کا ناول "دنیا کی آزادی" یاد تھاجس میں ویلز نے ایٹم بم کی پیشن گوئی کی تھی ۔ایچ جی ویلز نے ناول میں لکھا تھا کہ ایٹم بم بنانے کا معمہ ایک طبعیات دان انیس سو تینتیس میں حل کرلے گا، حسن اتفاق دیکھئے سلارڈ کو یہ ناول انیس سو بتیس میں ملا جس نے اسکا حوصلہ بڑھایا، انیس سو تینتیس میں بلکل جیسا کہ ناول میں دو دھائی قبل پیشن گوئی کی گئی تھی سلارڈ نے ایک ایٹم سے بڑھ کر زنجیری تعامل کے ذریعے ارب ہا ایٹم کی تقسیم سے ایٹم بم کا راز پالیا۔ سلارڈ نے فوری  ضروری تجربات شروع کردیئے اور آئن اسٹائن اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کے درمیان مذاکرات کروائے جو بعد ازاں مین ہیٹن پروجیکٹ اور ایٹم بم کی تیاری کا باعث بنے۔

بار بار ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح ناممکن پر تحقیقات سائنس میں نئی راہیں کھولتی ہیں، کیمیاء اور طبعیات کی سرحدوں کو دھکیلتی ہیں اور سائنسدانوں کو مجبور کرتی ہیں کہ "ناممکن " کی تعریف دوبارہ لکھیں۔وہ جیسا کہ سر ولیم اوسلر نے ایک دفعہ کہا تھاکہ"ایک زمانے کی فلاسفی اگلے زمانےکی فضولیات بن جاتی ہیں اور گذرے کل کی بیوقوفیاں آنے والے کل کی حکمت کہلاتی ہیں"۔اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کون سے ٹیکنا لوجیز ایسی ہیں جو آج تو ناممکن دکھائی دیتی ہیں، لیکن مستقبل میں کچھ دہایوں یا صدیوں بعد روز مرہ زندگی کا حصہ ہونگی،کم از کم ایک ٹیکنا لوجی یعنی ٹیلی پورٹیشن جو کہ ناممکن سمجھی جارہی تھی آج حقیقت بن  چکی ہے کم از کم ایٹموں کی حد تک تو۔

۔معروف نظری طبعیات دان میشیو کاکو کی زیرِمطالعہ کتاب "ناممکنات کی طبعیات"کے پیش لفظ سے اقباس