Thursday 5 January 2012

آخر لیلیٰ جہنم میں کیوں جائے گی؟



"اگر تمہیں جنت میں جانا ہے تو تمہار اس دین پر ایمان ہونا چاہیئے کیونکہ تم چاہے کتنے ہی اچھے ہو جنت صرف اسے ملے گی جس کا عیسیٰ پرایمان ہوگا"۔ آندریاس کا یہ جواب مجھے بہت برا لگا، میں نےتو کبھی کسی کے جنت یا جہنم میں جانے کا فتویٰ جاری نہیں کیا تو آج مجھے کیوں جہنم میں جانے کا حقدار ٹہرایا جارہا ہے۔لیکن شاید بات اتنی سادی نہیں ہے، دراصل یہ سوال میں نے ہی آندریاس سے کیا تھاکہ تم مجھے جانتے ہو، چھوٹی موٹی برائیوں کہ سواء جوکہ سب ہی میں ہوتی ہیں میں اخلاقی طور پر ایک بہت اچھا انسان ہوں ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ میری ان تمام اچھائیوں کے باوجود، اس دنیا میں ایک پرامن اور اخلاقی زندگی گزارنے کا صلہ مجھے یہ ملے گا کہ میں جہنم میں جاوَں گا؟ آندریاس کے لئے یہ ایک مشکل سوال تھاکیونکہ سویڈش لوگ ذیادہ تر دوسرے لوگوں کے مذہب اور نظریات پر تبصرہ نہیں کیا کرتےلیکن میں اور آندریاس کوئی اجنبی نہیں تھے اسی لئے اس نے وہی جواب دیا جس کی توقع کسی بھی مذہبی شخص سے رکھی جاسکتی تھی یعنی اگر میں مخصوص نظریات پر ایمان نہیں رکھتا تو محض میرا اخلاقی طور پر اچھا ہونا اور اچھے کام کرنا مجھے جنت میں نہیں لے جاسکتے۔ایک لمحے کو جی میں یہ آیا کہ میں اس معاملے پر اچھی خاصی بحث کرسکتا ہوں لیکن مجھے معلوم تھا اس بحث کا فائدہ کوئی نہیں کیونکہ آندریاس میرے ہرسوال کے جواب میں منطقی جواز دینے کے بجائے مذہبی جواز دیگا، اس لئے میں نے جاتے سال کہ آخری شام کو بحث کی نظر کرنا مناسب نہ سمجھا۔

 یہ سوال کہ جنت میں جانے کہ لئے ایمان اعمال سے ذیادہ اہم کیوں ہیں آندریاس سے میرے مقالمے سے کئی روز قبل ہی سے میرے دما غ میں کلبلارہا تھا۔چوبیس دسمبر کی شام میں لیلیٰ کی جانب سے دی گئی ایک کرسمس ضیافت مدعو تھا، لیلیٰ دراصل ایک ریٹائرڈ نفسیاتی معالج برائے اطفال ، اور ایک دوست کی دوست ہے۔باوجود ریٹائرمنٹ لیلیٰ اب بھی بچوں خصوصا تارکینِ وطن بچوں کے لئے مفت کام کرتی ہے اور ہر سال کرسمس سے ایک دن قبل ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کرتی ہے جس میں بچے اور ان کے والدین شریک ہوتے ہیں۔اس سال کی ضیافت میں لیلیٰ نے مجھے بھی مدعو کیا بنیادی طور پر تو ہاتھ بٹانے کے لئے لیکن اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔ یوں تواس ضیافت میں ہر رنگ ،نسل اور مذہب کے لوگ موجود تھے لیکن کھانا خصوصی طور پر حلال رکھا گیا تھا تاکہ تمام لوگ کھا سکیں۔کھانے کے بعد لیلیٰ ایک بوری نما بڑاسا تھیلا اٹھالائی اور تمام بچوں کو تحفے دیے ، یہ تمام تحفے نئے تھے اور میرے خیال میں ان کی مجموعی مالیت کم از کم دو ہزار کراوَن تو ہوگی ہی۔ان تحفوں کووصول کرنے والے بچوں کی خوشی دیدنی تھی، خوشی میں اچھلتے یہ بچے اپنے اپنے تحفے ایک دوسرے کو دیکھا رہے بلا تفریقِ رنگ و نسل ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں بچوں کی اس خوشی ، انکا جوش اور انکی مسکراہٹیں دیکھ ہم تمام بالغان بھی مسرور تھے۔

 دنیا بھر میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو گو کہ ہمارے مذہب پر ایمان تو نہیں رکھتے لیکن انکے اعمال بہت شاندار ہیں، ان میں سے کچھ دوسرے مذاہب پر یقین رکھتے ہیں، کچھ دہریے ہیں اور کچھ لیلیٰ کی طرح اگناسٹک بھی ہیں۔جس طرح میں آندریاس کی نظر میں جہنمی ہوں اسی طرح بہت سوں کی نظر میں لیلیٰ بھی جہنمی ہے اور اس کے اچھے اعمال، اس کی اخلاقی زندگی اس کے کچھ کام نہ آئے گی، میرے لئے کم از کم میرے اپنے مذہب میں جنت کی ایک امید تو موجود ہےلیکن لیلیٰ کے لئے شاید وہ بھی نہیں کیونکہ وہ اگناسٹک ہے یعنی خدا کے وجود کے بارے میں غیر یقینی کا شکارہے۔ہم سب نے یہ حکایت تو سن ہی رکھی ہوگی کہ کس طرح ایک شخص ایک پیاسی کتیا کو پانی پلانے کی وجہ سے جنت کا حقدار بنا، اگرمیں جہنم میں گیا بھی تو یہ بات میرے لئے قابلِ حیرت نہ ہوگی کیونکہ زیادہ ترمسلمانوں کی طرح میں کوئی بہت اعلیٰ مسلمان نہیں ہوں اور نہ ہی میں اپنے اعمال میں کوئی ایسا کارنامہ پاتا ہوں کہ جس کی بناء پر میں اس شخص کی طرح جنت کا حقدار بن جاوَں لیکن جو بات میری سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ آخر لیلیٰ کیوں جہنم میں جائےگی؟

14 comments:

  1. ایسے لوگ جن تک دین کا پیغام نہیں پہنچا اور وہ نیک اعمال کرتے اور خدا کو لاشریک مانتے ہیں یا تھے وہ ضرور جنت میں جائیں گے۔ لیکن اگر آپ عیسائیوں کا یہودیوں کو دیکھیں یا ان کے نظریات کو دیکھیں تو وہ لوگ آپ کو جہنمی اسلئے نظر آئیں گے کہ انہیں نبی آخرالزمان کا اُن کے اجداد سے نا ہو کٹھکتا ہے۔ اور وہ خودکو خدا کی مقرب قوم سمجھتے اور مانتے ہیں۔
    عیسائی اللہ کو لاشریک نہیں مانتے اور ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوسکتا کہ میں آپ پر کیچڑ بھی اچھالوں اور آپ اس کے باوجود مجھے آپنے پاس سب سے خوبصورت جگہ پر رکھیں اور لذیز کھانا کھلائیں۔

    ReplyDelete
  2. ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
    دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

    علاوہ ازیں۔ میرا نہیں خیال کہ جو لوگ صحیح معنوں میں نیک ہوتے ہیں، وہ نیکی کے کام اللہ کے لئے کرتے ہیں۔ کیوں کہ فلاح کی اللہ یا کسی بھی اور مذہب کے خدا کو کیا ضرورت ہے؟ فلاح کی ضرورت تو انسانیت کو ہے۔ لحاظ ہر حقیقی نیکوکار دراصل انسانیت کے لئے نیک سلوکی اپناتا ہے۔ اس کے صلے جنت ہے مگر آخرت والی نہیں۔

    ReplyDelete
  3. اس سوال کا جواب آپ کو کبھی ملے تو ہمیں بھی ضرور بتائیے گا۔
    :)

    اور ایک شعر خواجہ حیدر علی آتش کا

    کفر و اسلام کی کچھ قدر نہیں اے آتش
    شیخ ہو یا کہ برہمن ہو پر انسان ہووے

    ReplyDelete
  4. میں نومان کے خیال سے متفق ہوں۔ جنت اور دوزخ کا فیصلہ مرنے کے بعد ہوگا۔ انسان کو زندگی میں اپنے نفس کو مطمئن رکھنا چاہئیے۔ دل کو حقیقی خوشی کسی انسان کے کام آ کر ہی ہوتی ہے۔ اس خوشی کا نام ہی اطمینان ہے۔
    یہ بات بھی بالکل صحیح ہے کہ ایک نیک انسان جنت یا دوزخ کی لالچ میں نیکی نہیں کرتا اور نہ ہی اسے یہ خیال آتا ہے کہ اللہ اس کام سے خوش ہوگا۔
    اللہ جیسی عظیم قوت کو انسان جیسا جذباتی بنا دیا ہے انسان نے۔ میرا خیال ہے کہ خدا انسان سے خاصہ مختلف ہوگا۔ اسے ہونا چاہئیے۔ ورنہ وہ انسان کے بنائے گئے معبودوں جیسا ہی ایک اور خدا ہو گا۔

    ReplyDelete
  5. اگر آپ واقعی اس سوال کا جواب چاہتے ہیں تو بلاگر مفتیوں کے فتووں کی بجائے انسانوں کے خدا کی کتاب پڑھ کر دیکھیں۔

    ReplyDelete
  6. تبصرے کے لئے شکریہ عنیقہ ناز ، نعمان، عبدالقدوس اور جعفر۔

    @جعفر
    بھائی میں فتووں کی تلاش میں نہیں، میں نے تو محض ایک سوال اٹھایا ہے کہ اچھے اعمال کیوں کام نہیں آئیں گے کسی کہ، خواہ وہ میں ہوں یا لیلیٰ

    ReplyDelete
  7. یہ ایسا سوال ہے جو عرصہ قبل میرے دماغ میں بھی اٹھا تھا۔ ذہن اس جگہ جا کر مطمئن ہوا کہ جنت یا دوزخ میں بھیجنے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اس لیے ہمارا اس بحث میں الجھنا کچھ بیکار لگتا ہے۔

    اصل چیز وہ کام ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دنیا میں کرنے کو دیے ہیں اس لیے زیادہ زور ان کاموں کو کرنے پر دینا چاہیے بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کو دیکھیں۔ اور وہ کام کیا ہے؟ "تم میں بہتر وہ ہیں، جن کا اخلاق اچھا ہے۔"

    مسائل اصل میں پیدا ہی وہیں ہوتے ہیں جب ہم دوسروں کو جانچنے لگتے ہیں۔ اگر کوئی عورت برقعہ پہنتی ہے تو وہ برقعہ نہ پہننے والوں کو حقیر جانے، داڑھی رکھنے والا بے داڑھیے کو جہنمی سمجھے۔ بالکل اسی طرح پردہ نہ کرنے والی عورت پردہ دار خواتین کو دقیانوسی سمجھے اور بظاہر 'ماڈرن' نظر آنے والا آدمی داڑھی رکھنے والوں کو جاہل گردانے۔ حالانکہ ہو سکتا ہے کہ وہ دونوں اخلاق و عقل میں اس سے کہیں بہتر ہوں اور اللہ کے نزدیک ان کا درجہ کہیں زیادہ ہو۔

    اس لیے میں اب اس سوال کے بارے میں نہیں سوچتا۔ اللہ کا معاملہ ہے اللہ جانے :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. کافی عرصہ پہلے میں بھی یہی سوچتا تھا کہ انسان نہ جانے ہی تو اچھا ہے، آخر مشکل سوالات کا جواب لیکر ہمیں کیا کرنا ہے۔ پھر اب نجانے کیوں ایسا لگنے لگا ہے کہ ہر سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش عین فطرتِ انسانی ہے اور بطور بنی نوعِ انسان ہماری بقاء کا دارومدار لاعلمی سے علم کی طرف آنے پر ہی ہے۔

      Delete
  8. salam alaikum,
    achi tehreer he aur aik ehm sawal uthaya he.
    waqai ye ajeeb si bat lagti he keh esa kiyun hoga keh jiska aqeedah sahih nahi usko jahannum milegi
    mera aqidah ye he keh Allah kamil insaaf kerne wala he to yaqeenan wo kisi ke bhi ache aamaal zaya nahi kere ga. dil ka haal to Allah hi janta he...humko to sirf samne ki chezain nazr aati hen. laila jese log buht hen dunya me jin ki sari umr nekyoon me hi guzr jati he magr wo muslim nahi hote. Allah ne un tak bhi hidayat pohnchane ka intezaam kiya hoga jis ka sawal akhirat me hoga keh khuli hidayat ko kiu jhutlaya....niyat aur dil ka hal to Allah hi janta he...

    Quran me sura zukhruf ki ayat ka terjuma dekh len (ayat 32-38):
    کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں ان کی روزی تو ہم نے ان کے درمیان دنیا کی زندگی میں تقسیم کی ہے اور ہم نے بعض کے بعض پر درجے بلند کیے تاکہ ایک دوسرے کو محکوم بنا کررکھے اور آپ کے رب کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں
    اور اگر یہ نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک طریقہ کے ہوجائیں گے (کافر) تو جو اللہ کے منکر ہیں انکے گھروں کی چھت اور ان پر چڑھنے کی سیڑھیاں چاندی کی کر دیتے
    اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی چاندی کے کر دیتے جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں
    اور سونے کے بھی اور یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور آخرت آپ کے رب کے ہاں پرہیزگاروں کے لیے ہے
    اور جو اللہ کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو ہم اس پر ایک شیطان متعین کر تے ہیں پھر وہ اس کا ساتھی رہتا ہے
    اور شیاطین آدمیوں کو راستے سے روکتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم راہِ راست پر ہیں
    یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا اے کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی پس کیسا برا ساتھی ہے



    mere khayal me humko ache logo ke liye Allah se rehm ki aur hidayat ki dua kerni chahye keh Allah unko hidayat de de. aur Allah ke insaaf se mutmaeen rehna chahye inshallah kisi ke sath zulm nahi hoga....aur humko Allah se derte rehna chahye kiunkeh pedaishi muslim hone se koi janat ki guarantee nahi ho jati.janat her koi apne amaal aur taqwa se hi hasil kerega

    ReplyDelete
    Replies
    1. ندرت معذرت کے ساتھ لیکن مجھے جہنم کی وجہ ہی سمجھ میں نہیں آتی، کہا یہی جاتا ہے کہ اللہ اپنی مخلوق سے بہت ذیادہ محبت کرتا ہے، اور پھر جہنم بھی خدا کی ہی بنائی ہوئی ہے، جہاں زیادہ تر انسان روزِ آخرت کو جائیں گے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا نے تمام انسانوں کو ایک ہی دین پر اور اچھے اعمال کرنے والا کیوں نہ بنایا۔ اگر ایسا ہوتا جہنم کی ضرورت ہی نہ رہتی اور اس کی محبوب مخلوق کی غالب اکثریت جہنم کی نظر نہ ہوتی۔

      Delete
    2. عبدالرؤف15 March 2012 at 06:52

      آپ کو اپنے ہونے کی وجہ معلوم ہے کیا؟، جواب ضرور عنایت کریئے گا۔

      Delete
  9. janab agr ap ko khuda ke kisi bhi mamle ya fesle se masla he to seedhi si baat he keh khuda se zada taaqatwer hojain aur apni merzi ker len...werna manne ke ilawa koi choice nahi he.... chahe to khushi se man len ya na-kushi se.... ye poora aik system he jo Allah ne design kiya he..... hum ko to is me insaf nazr ata he apko na ay to aur bat he....
    mujhe smjh nahi ata keh logon ko khuda se itne masle hote hen to aakhir wo khuda ko mante hi kiun hen? kisi ne koi compulsion ki he kiya ap per? na kerye yaqeen....islam per ya khuda per kisi bat per na kerye yaqeen....kis ne zabrdasti ki he????
    agr yaqeen kerna he to poori terha werna kerna aur nahi kerna aik jesa he....
    is link per islam ka sahi matlab dekh lain :
    http://www.islamtomorrow.com/islam.asp

    ReplyDelete
  10. قرآن مجید، سورۂ بقرہ، آیت نمبر 62۔ ترجمہ:
    "یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی،جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گااور نیک عمل کرے گا، اُس کا اجر اُس کے ربّ کے پاس ہے اور اُس کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے"

    ReplyDelete
  11. یہاں یہود نصاریِ کےزعم کا جواب ہے کہ وہ صرف خود کو ہی خدا کا چہیتا سمجتےتحے۔

    ReplyDelete