Friday 24 February 2012

اسلامی تاریخ میں سائنس کا عروج و زوال


ڈاکٹر نیل ڈیگراس ٹائیسن


 

تاریخِ انسانی کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں ایسے ادوار آتے ہیں جن میں ان کے یہاں مختلف علوم میں بے مثال ترقی ہوتی ہے، ہم قوموں کے اس دور کا جائزہ لیکر   معلوم کرسکتے ہیں کہ وہ کونسی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے علمی ترقی کا یہ دور شروع ہوا ور اس علمی ترقی کے اختتام کی کیا وجوہات تھیں۔ میں ایسے ادوار کو نام رکھنے کے حق کا دور کہتاہوں، مثال کے طور پر اگر آپ کوئی نئی چیز دریافت کرکے ہیں یا نئی دریافت کا سب سے پہلے اوربہترین استعمال کرتے ہیں تو  اسکا نام  رکھنے کا موقع بھی آپ ہی کو ملتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکا میں ذراتی طبعیات {پارٹیکل فزکس } نے بہت ترقی کی یہی وجہ ہےکہ ہمیں برکیلیم اور کیلیفورنیم جیسے  عناصر کے نام ملتے ہیں،  بھاری عناصر میں سے آدھے سےذیادہ کے نام ہم نے رکھے ہیں اسکی وجہ یہ نہیں ہے کہ دنیا کو کیلی فورنیا یا برکلے  سے کوئی لگاوَ تھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ہم نے دریافت کیا تھا۔ نام رکھنے کے اس حق کا یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ آپ کو نام رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی مثال کے طور پر ہم نے انٹرنیٹ کو گوکہ ایجاد نہیں کیا لیکن ہم نے اس کو عام کیا اور اس کا بہترین استعمال کیا یہی وجہ ہے کہ آج آپ کی ای میل ڈاٹ یو ایس رکھنے والے ان باکس میں نہیں جاتی جبکہ دیگر ممالک میں عموما ای میل پتے میں ملک کا نام بھی آتاہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ برطانونی ڈاک ٹکٹ دنیا میں واحد ڈاک ٹکٹ ہیں جن پر ملک کا نام درج نہیں ہوتا کیوں کہ ڈاک ٹکٹ خود برطانوی ایجاد ہے تو انہیں کیا ضرورت ہے اس پر نام لکھنے کی۔ رات کو دکھائی دینے والے ستاروں کے جھرمٹوں کے یونانی اور لاطینی ذبانوں میں رکھے گئے اور انہیں آج بھی انہی ناموں سے پکارا جاتاہے۔

گیارہ ستمبر کو دہشتگروں کے امریکہ پر حملے کےچند دن  بعد صدر جارج بش نے دہشتگردوں اور ہمارے درمیان فرق وضح کرنے کے لئے انجیل سے ایک حوالہ دیا کہ "ہمارا خدا وہ خدا ہے جس نے ستاروں کو ان کے نام دیئے"، یاد رہے کہ یہ میری بش انتظامیہ کے ساتھ کام شروع کرنے سے پہلے کی بات ہے کیونکہ اگر میں وہاں ہوتا تو حقیقت معلوم کرنے میں ان کے مدد کرسکتا تھا۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ستاروں کے جھرمٹوں کے نام تو یونانی اور لاطینی میں ہے لیکن جن ستاروں کو نام دیئے گئے ہیں ان کی اکثریت کا نام عربی ذبان میں ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ستاروں کے نام عربی میں کیوں ہیں؟وجہ یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں سن آٹھ سو عیسوی سے گیارہ سو عیسوی تک کا دور علمی لحاظ سے  انتہائی زرخیز دور تھا، اس  تین سو سالہ دور میں جب پورا یورپ مرتدوں کو ٹھکانے لگانے میں مصروف تھا،  بغداد دنیا بھر میں  مرکزِ علم و دانش تھا۔

سن آٹھ سے صدی عیسوی کا بغداد دنیا بھر میں علم ودانش کا مرکز کیسے بنا اس کی وجوہا ت جاننے کے لئے جب ہم اس دور کا جائزہ لیتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ اس دور میں بغداد بلاتفریقِ رنگ و نسل ہر موضوع پر علم رکھنے والوں کے لئے کھلاتھا، مسلمان، عیسائی ، یہودی اور دہریے سب ایک ہی شہرمیں علم اور نظریات کا تبادلہ کررہے تھے۔یہ وہ دور تھا جس میں بنی نوع انسان نے  انجینئرنگ، حیاتیات، طب اور ریاضی میں ذبردست ترقی کی، آج ہم جو جدید ہندسے استعمال کرتے ہیں کیا آپ کو معلوم ہے کہ انہیں کیا کہا جاتا ہے؟ انہیں عربی ہندسےکہا جاتاہے،  آخر  یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ  جدید ہندسے جنہیں روز ہم استعمال کرتے ہیں عربی ہندسے  کہلاتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ  اس دور کے مسلم ریاضی دانوں نے صفر کی ایجاد سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے  ریاضی کی ایک نئی شاخ الجبراء تخلیق کی، خود الجبراء ایک عربی نام ہے ، الگورتھم ایک عربی نام ہے۔اس دورمیں خوربصورت اور درست آسٹرولیب بنائے گئے اس آلہ کو مختلف فلکیاتی پیمائش سرانجام دینے والا ایک دستی کمپیوٹر کہاجاسکتاہے۔آج کے کئی جدید علوم مثال کے طور پر ریاضی اور فلک پیمائی  {سیلسٹیل نیویگیشن} کی جڑیں اس دور سے جاملتی ہیں۔

لیکن اس سنہری دور کے بعد کچھ ایسا ہوا جس نے اسلامی دنیا کو ترقیِ معکوس کے سفر پر ڈال دیا، ویسے تو اس ترقی معکوس کی وجہ سقوطِ بغداد کو بھی کہا جاتا ہےلیکن بغداد کے بعد اسلامی تہذیب پھر کھڑی ہوئی لیکن اس بار علمی ترقی بغداد کےان  تین سوسال کے مقابلے میں کچھ نہیں تھی۔ ایسا کیوں  ہوا؟ جبکہ علمی ترقی مسلمانوں کا تہذیبی ورثہ تھا تو کیوں وہ دوبارہ ایسا کرنے میں ناکام رہے؟ اگر ہم اس معاملے کی مزید گہرائی میں جائیں تو  معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں حامد الغزالی نامی ایک مذہبی عالم تھاجس کا اسلام میں وہی کردار تھا جو کہ عیسائیت میں سینٹ آگسٹین کا ہے۔جس طرح سینٹ آگسٹین نے کتاب لکھی کہ اصل اور اچھا عیسائی کیسے بنا جاتاہے اسی طرح حامد الغزالی نے مسلمانوں کو اچھا اور اصل مسلمان بنے کا طریقے بتائے، اپنی انہیں تصانیف میں الغزالی نے ایک اصول جسے پہلے معاشرتی اور پھر سیاسی پذیرائی ملی ، لکھا کہ ریاضی اور اعداد کا یہ کھیل ایک شیطانی کام ہے، محض اس ایک اصول سے اسلام میں علمی ترقی کے بنیاد ڈھ جس کی آج تک تلافی نہیں ہوسکی۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہودیوں نے آج تک کتنے نوبیل انعام برائے سائنس جیتے ہیں؟ یہ تعداد سائنس پر دئیے گئے کل نوبیل انعاموں کا ایک چوتھائی ہے  اور دنیا میں ذیادہ سے ذیادہ  پندرہ ملین یہودی ہونگے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آج تک کتنے مسلمانوں کو سائنس پر نوبیل انعام ملا ہے؟ محض ایک کو اور وہ  بھی مشرقِ وسطیٰ کے عرب مسلمان کو نہیں بلکہ ایک پاکستانی سائنسدان عبدالسلام کو اور دنیا میں ایک اعشاریہ تین ارب مسلمان رہتے ہیں، ذرا تصورکیجئے کہ اگر آج مسلمانوں میں علمی ترقی کا سفر جاری رہتا تو آبادی کے تناسب سے اگر دیکھا جائے تو آج سائنس کا ہر ایک نوبیل انعام کسی مسلمان کو ملتا۔اگر سن گیارہ سو  عیسوی میں الحام تحقیق پر غالب نہ آتا توکس قدر قابلیت پچھلے ایک ہزار سال میں اپنا اظہار کرسکتی تھی جو کہ نہ کرسکی۔




{یہ تحریر امریکی ماہرِ فلکی طبعیات  اور نیویارک شہر میں واقع ہیڈن پلانیٹیریم  کے ڈائریکٹر ڈاکٹرنیل ڈیگراس ٹائسن کی جون دوہزار دس میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں منعقد ہونے والے سائنس کیفے میں کی گئی گفتگو سے اخذ کی گئی ہے۔}

نوٹ۔ آسٹرولیب اسلامی دور کی ایجاد تو نہیں لیکن انہیں اس زمانے میں ان کا بھرپور استعمال کیا گیا اور ان کو مزید درست بنایا گیا۔


3 comments:

  1. کیا واقعی یہ امام غزالی والی بات ٹھیک ہے جبکہ بہت سے لوگ تو ان کو فلسفے کا بنیادی ستون کہتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مضمون کے لیے تو انہوں نے اتنا کیا ہو اور دوسرے کو شیطانی قرار دیا ہو؟؟

    ReplyDelete
  2. حوالہ تو ابھی اسکا نہیں ہے، مگر ایک لائن تو دی گئی، ابھی یہ دیکھنا ہمارا کام ہےکہ کیا واقعی یہ بات ہے، اور بعید بھی نہیں ہے، کہ ایسا ہی ہو، جس اگسٹین کا کہا گیا ہے یورپ میں اسکو بھی سارے بہت پوتر مانتے ہیں مگر اب ڈھول کے پول کھل رہے ہیں، آہستہ اہستہ، اسی لئے تو عوام کو علم سے دور رکھا جاتا ہے، الومیناتی کی سازش مشہور ہے یورپ میں

    ReplyDelete
  3. بہترین تحریر ہے..

    علی صاحب آپ کو کس نے کہہ دیا کہ غزالی صاحب فلسفے کا بنیادی ستون ہیں جبکہ انہوں نے تہافت الفلاسفہ لکھ کر فلسفے کو کفر وزندقہ قرار کیا دیا تھا؟ یہ الگ بات کہ وہ خود اس فلسفے کے دام میں آگئے..

    ReplyDelete