Friday 9 March 2012

حیاتیاتی ارتقاء ۔ حصہ دوم، خرد ارتقاء


بقائے اصلح
Survival of The Fittest.


کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ میں یہاں بیمار پڑگیا، ویسے تو میں بہت کم بیمار پڑا کرتا ہوں اور چھوٹی موٹی بیماریاں خود ہی ٹھیک ہوجاتی ہیں لیکن اس بار میری ٹھیک ٹھاک حالت خراب ہوگئی مجھے بخار اور کھانسی کی شکایت تھی۔ ویسے تو اسکینڈے نیویا میں علاج معالجہ مفت ہے لیکن یہاں دوائیاں کم ہی دی جاتیں ہیں، جس طرح پاکستان میں سردرد کی ایک ہزار گولیاں مل جاتیں ہیں یہاں ایک بھی نہیں ملتی اور پیناڈل کے سواء ہر دوا ڈاکٹر کے مشورے سے ہی دی جاتی ہے۔ یہاں تبدیل ہوتے موسم میں عام بخار اور کھانسی کو بیماری بھی نہیں سمجھا جاتا اور جن علامات پر پاکستانی ڈاکٹر دوائیوں کا ایک ڈھیر مریض کے حوالے کر دیتا ہے یہاں صرف آرام  اور گرم مشروبات پینے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ تین روز تو میں نے بیماری کو از خود ٹھیک ہونےکا موقع دیا لیکن حالت مزید خراب ہونے پر مجھے اسپتال جانا پڑاجہاں معائنہ کے بعد ڈاکٹر نے یہی کہا کے یہ موسمی اثرات ہیں اس لئے آرام کرو اور کافی پیو، لیکن مزید پانچ دن بعد بھی میری حالت میں بہتری نہیں آئی، میرا  وزن کم ہونے لگا، اور کھانسی کے دوران مجھے اپنے خون کی بو آنے لگی لیکن ڈاکٹر کے نزدیک یہ محض میری کھانسی کی وجہ سے حلق میں پڑنے زخموں کی وجہ سے ہے۔ دوروز بعد میں تیسری بار اسپتال گیا تاکہ ڈاکٹر کو کسی طرح اینٹی بائیوٹک لکھنے پر راضی کرسکوں لیکن اس دن ایک دوسرا ڈاکٹر موجود تھاجس نے اس بار پھیپڑوں کا معائنہ کیا  تو معلوم ہوا کہ جناب ہمیں نمونیا ہےاور بلاخر ڈاکٹر مجھے دوا دینے پر راضی ہوگیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہاں کے ڈاکٹر اینٹی بائیوٹکس کے اتنے خلاف ہیں؟

ماضیِ بعید میں جب انسان جنگلوں میں رہا کرتا تھا تب اس کے کئی شکاری تھے  لیکن ہزاروں سالوں کی ترقی نے انسانی زندگی اب کافی محفوظ بنادی ہے، لیکن اس کے باوجود انسان کا ایک سب سے خطر ناک دشمن باقی ہے  اور وہ ہے بیکٹیریا، جی ہاں یہ چھوٹا سا جرثومہ انسان کا سب سے بڑا شکاری ہے اور انسان کو بہت ساری بیماریاں اسی جرثومے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ایسا ہے ایک جراثیمی حملہ مجھ پر بھی نمونیا کی صورت میں ہوا تھا اور میرا مدافعاتی نظام اسے روکنے میں ناکام رہا تھا۔یہاں کے ڈاکٹر انتہائی ضرورت کے موقع پر ہی اینٹی بائیوٹک ادویات دیتے ہیں کیونکہ جراثیمی حملوں کو روکنے کے لئے جسم میں پہلے ہی سے ایک مدافعاتی نظام موجود ہے اور وہ باہر سے آنے والی ہرچیز بشمول اینٹی بائیوٹک دوا کے اثر کو روکنے کی کوشش کرتاہے، اسی لئے اینٹی بائیوٹک ادویات نقصان دہ جراثیم کے علاوہ انسان کے مدافعاتی نظام کو بھی نقصان پہچاتے ہیں اور اگر اینٹی بائیوٹکس کا بہت ذیادہ استعمال کیا جائے تو یہ بے اثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ایسا کیوں ہوتاہے؟ جواب شاید کچھ لوگوں کے لئے حیران کن ہو یعنی عملِ ارتقاء۔ جس طرح کسی بھی قدرقی آفت سب سے پہلے کمزوروں کے جان لیتی ہے اسی طرح اینٹی بائیوٹک ہمارے مدافعاتی نظام کے ان اراکین کا سب سے پہلے خاتمہ کرتی ہے جو اس دوا کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں  لیکن طاقت ور اس دوا کا مقابلہ کرتے ہیں ، زندہ رہتے ،اپنی نسل بڑھاتے ہیں اور اس مدافعاتی صلاحیت کو اپنے اولاد میں منتقل کرتے ہیں۔

ارتقاء کے اس عمل سے ہمارے مدافعاتی نظام  ہی نہیں  بلکہ حملہ آور جرثومے بھی گزرتے ہیں، حملہ آور بیکٹیریا کے بڑی آبادی اینٹی بائیوٹکس کے اثر سے مر جاتی ہےلیکن چند بیکٹیریا پر جینیاتی تغیر { Mutation } کی وجہ سے دوا اثر نہیں کرتی اور وہ زندہ رہتے ہیں ، ان بیکٹیریا کو اگر مناسب ماحول مل جائے تو یہ دواسے مدافعت رکھنے والی بیکٹیریا کی نئی نسل پیدا کرتےہیں،  اس بیکٹیریا کوختم کرنے کے لئے دوا کی مقدار بڑھائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ  مدافعت بھی بڑھ جاتی ہےحتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دوا کسی کام کی نہیں رہتی اورایک مکمل مدافعت رکھنے والا بیکٹیریا پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں اسکینڈےنیویا کے ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک تجویز کرنے سے ہرممکن پرہیز کرتے ہیں کیونکہ ان کا زیادہ  استعمال نہ صرف انہیں بے اثر کرتا ہے بلکہ خود بیکٹیریا میں تبدیلیوں کا سبب بن کر انہیں مزید خطرناک بنادیتا ہے ۔تبدیلی کے  اس عمل کو خردارتقاء یا مائیکرو ایولوشن کہاجاتاہے جوکہ بقائے اصلح  { survival of the fittest } کی بنیاد پر قدرتی انتخاب { Natural Selection } کی وجہ سے ہوتاہے۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی سے میتھاسیلن نامی دوا کا استعمال متروک ہوچکا ہےکیونکہ جس بیکٹیریا کے خلاف یہ دوا استعمال کی جاتی تھی وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو تبدیل کرچکا ہے،خرد ارتقاء کی چند مزید مثالیں یہ ہیں۔

Methicillin-Resistant Staphylococcus Aureus
Vancomycin-Resistant Staphylococcus Aureus
Penicillin-Resistant Pneumococcus
Penicillin-Resistant Enterococcus
Linezolid-Resistant Enterococcus
Clindamycin-Resistant Clostridium Difficile
Sulfonamide-Resistant Becteria
Extensively Drug-Resistant Turberculosis

خرد ارتقاء کی ایک اور بہترین مثال نائیلون کھانے والا بیکٹیریا ہے۔سن انیس سو پچھتر میں جاپانی سائنسدانوں نے نائیلوں فیکٹریوں میں استعمال شدہ پانی کے تالابوں میں بیکٹیریا کی ایک قسم دریافت کی جو کہ تالاب میں موجود  نائیلون کے بائی پروڈکٹس کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے ، نائیلون ایک انسانی ایجاد ہے  اور انیس سو پینتیس سے قبل زمین پر کہیں بھی نائیلون نہیں پایا جاتا تھا اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا ہےکہ ایک بیکٹیریا تخلیقِ کائنات کے دن سے بھوکا تھا اوراربوں سال سے  انسان کے نائیلون ایجاد کرنے کےانتظارمیں زندہ تھا اور انیس سو پینتیس میں اپنی خوارک کے انسان کے ہاتھوں ایجاد کے بعد جاپان کی نائیلون کے کی فیکٹریوں کے قریب جابسا نہیں ایسا یقینا نہیں ہے یہ بیکٹیریا پہلے سے موجود کسی اور بیکٹیریا کی ارتقائی شکل ہے۔

یہاں تک تو بات کافی سادہ ہے یعنی بیکٹیریا ایک مشکل زندگی گزارتا ہے اس لئے جو بیکٹیریا خود کو ماحول کے مطابق اچھی طریقے سے ڈھال لیتے ہیں وہی اس قابل رہتے ہیں کہ اپنی نسل بڑھا سکیں، اور ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ چھوٹی چھوٹی وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہوتی رہتی ہیں اور آخر کار فرق اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ایک بلکل تبدیل شدہ بیکٹیریا سامنے آتاہے۔اس دوران پرانے قسم کا بیکٹیریا ناپید ہوسکتا ہے ، نئے بیکٹیریا کے متوازی جدا زندگی گزار سکتا ہے یا ایک اور قسم میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ تو تھا خرد اتقاء جسے ہم براہِ راست دیکھ سکتے ہیں کیونکہ بیکٹیریا انتہائی سادہ جاندار ہیں اور ان میں ہونے والے ذرا سی جنیاتی تبدیلی کچھ ہے عرصے میں ایک واضح بڑی تبدیلی بن جاتے ہیں جبکہ بڑے جانداروں میں ارتقائی تبدیلیوں کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ تبدیلیں کروڑوں سال لیتی ہیں، ارتقائے کبیر یعنی { Macro Evolution } کے بارے میں میں اگلے حصہ میں بات کروں گا۔

3 comments:

  1. شکریہ جناب ۔ آپ نے میری حوصلہ افزائی کی ۔ میں اپنے لوگوں کو دو تین دہائیوں سے سمجھا رہا ہوں کہ اینٹی بائیوٹک اچھی چیز نہیں ہیں ۔ میں ڈاکٹر تو نہیں لیکن میں نے یہ سبق اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے ہی سیکھا اور اس کا استعمال عرصہ سے بند کر چکا ہوں

    ReplyDelete
  2. افتخار صاحب
    بلاگ پر بہت بہت خوش آمدید، اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال سے گوکہ ہر ممکن بچنا چاہیے لیکن اگر کوئی ڈاکٹر تجویز کرے تو استعمال ضروری ہے اور جب تک ڈاکٹر استعمال کرنے کا کہے استعمال کرنی چاہیے خواہ علامات ختم ہی کیوں نہ ہوگئی ہوں، کیوں کہ اگر ہم ان ادویات کا کورس پورا نہ کریں تو خطرناک بیکٹیریا مزید خطرناک ہوجاتا ہے۔

    ReplyDelete
  3. This line "کریدتے راکھ ہو آخر جستجو کیا ہے" is wrong, correct one is :
    "کریدتے ہو جو, اب راکھ جستجو کیا ہے" check from here : http://www.urdulibrary.org/index.php/%D8%AF%DB%8C%D9%88%D8%A7%D9%86_%D8%BA%D8%A7%D9%84%D8%A8/%D8%A8%D8%A7%D8%A8_9#.D8.AA.D9.85.DB.81.DB.8C.DA.BA_.DA.A9.DB.81.D9.88_.DA.A9.DB.81_.DB.8C.DB.81_.D8.A7.D9.86.D8.AF.D8.A7.D8.B2.D9.90_.DA.AF.D9.81.D8.AA.DA.AF.D9.88_.DA.A9.DB.8C.D8.A7_.DB.81.DB.92

    ReplyDelete