Wednesday 29 February 2012

حیاتیاتی ارتقاء ۔ حصہ اول


چارلس ڈارون




بارہویں صدی عیسوی کی بات ہے کہ جاپان پر ہیکے نامی سیمورائے جنگجووَں کے ایک قبیلے کی حکومت تھی، اس قبیلے کا سردار اور جاپان کا بادشاہ ایک سات سالہ بچہ اینتھوکو تھا جو اپنی دادی  نی ای خاتون کی سرپرستی میں جاپان حکومت کرتا تھا لیکن اس قبیلےکا ایک مخالف سیمورائے قبیلہ بھی تھا جس کا نام گانجی تھا۔ گانجی اور ہیکے قبائل میں جنگ اس بات پرتھی کہ  جاپان کےتاج  و تخت کا اصل وارث کون ہے۔چوبیس اپریل سن گیارہ سو پچاسی میں ان دونوں قبیلوں میں دانواُورا  کے مقام پر ایک آخری لڑی ہوئی جس نے جاپان کے تاج و تخت کا فیصلہ کردیا، اس جنگ میں ہیکے قبیلے کو بدترین شکست ہوئی اور باقی بچ جانے والے جنگجووَں نے سمندر میں ڈوب کر خودکشی کرلی۔

بادشاہ  کی دادی جو کہ دور سمندر میں کشتی پر سوار اس اپنے پوتے کہ ساتھ اس منظر کو دیکھ رہی تھی،نے فیصلہ کیا کہ وہ گرفتاری نہیں دے گی، بادشاہ اینتھوکو نے اس سے سوال کیا کہ دادی اب مجھے کہاں لے جاوَ گی ،دادی نے کوئی جواب نہ دیا صرف آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھا اور  بادشاہ اینتھوکو نے اپنی دادی کی آنکھوں میں اپنے سوال کا جواب پالیا ،  اس نے اپنے خوبصورت چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو باہم جوڑ کر پہلے مشرق اور پھر مغرب کی طرف رخ کرکے خداوَں کو الوادع کہا اور پھر اپنی دادی کی بانہوں میں سمٹ کر ان الفاظ کے ساتھ کہ "سمندر کی گہرایوں میں ہمارا  دارالحکومت ہے" خود کو سمندر کی لہروں کے حوالے کردیا، اس طرح نہ صرف ہیکے قبیلے کا تیس سالہ دورِ حکومت ختم ہوا بلکہ خود ہیکے قبیلہ بھی سوائے تیتالیس خواتین کے صفحہِ ہستی سے مٹ گیا۔ اپنے دورِ عروج میں شہزادیاں اور نواب زادیاں کہلائی جانے والی یہ خواتین جنگ کےبعد میدانِ جنگ کے قریب واقع مچھیروں کی بستیوں میں آباد ہوئیں جہاں وہ پھول بیچاکرتیں تھیں، آج تک ان خواتین کی اولاد ہر سال چوبیس اپریل کو ہیکے جنگجووَ ں اور بادشاہ اینتھوکو کی یاد مناتی ہے۔

ہیکے جنگجووَں کی کہانی دلچسپ ہے لیکن اس کہانی سے کہیں ذیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز  اسی کہانی سے جڑا ایک اور واقعہ ہے۔اس علاقے کے مچھیر کہتے ہیں کہ ہیکے جنگجو آپ بھی سمندر کی گہرایوں میں موجود ہیں، ایک خاص قسم کے کیکڑے کی شکل میں۔ اس علاقے میں ایک خاص کیکڑا پایا جاتا ہے جس کی پشت کہ نشانات بلکل ایک جاپانی سیمورائے جنگجو کے  چہرہ سے ملتے ہیں، یہ مچھیرے ان کیکڑوں کو کھاتے نہیں ہیں بلکہ ایسے کیکڑوں کو واپس سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جی ہاں کہانی کا یہ حصہ یقناً حیرت انگیز ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایک کیکڑے کی پشت پر ایک انسانی چہرا کیسے آگیا؟ یہ سوال جس قدر حیرت انگیز ہے اسکا جواب اسی قدر ہے آسان ہے، اور وہ یہ کہ چہرا انسانوں کا بنایا ہواہے ، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیسے تو اسکا جواب ہے  مصنوعی انتخاب یا آرٹیفیشل سلیکشن جو کہ ارتقائی عمل کا ایک اہم جز ہے۔


ہیکے کیکڑا


یہ مصنوعی انتخاب کیا چیز ہے؟ فرض کریں کہ ایک سمندر میں کافی سارے کیکڑے ہیں ، یہ تمام کیکڑے اپنے والدین سے ملتے جلتے لگتے ہیں لیکن ان میں کچھ فرق بھی ہے جس طرح بہن بھائیوں کی شکل آپس میں کچھ کچھ ملتی ہی لیکن ان میں فرق ہوتاہے۔ ان کیکڑوں میں اتفاق سے ایک کی پیٹھ کے نشانات میں انسانی چہرے کی انتہائی معمولی سی شباہت آتی ہے جو کہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ، یہ تمام کیکڑےایک دن کسی شکاری کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور جب شکاری انہیں سمندر سے باہر نکالتا ہے تو اسے انسانی چہرے کی معمولی سے شباہت رکھنے والا کیکڑا دیکھ کر حیرت ہوتی ہی اور وہ  قدیم لوگوں کی طرح ایک نظریہ قائم کرلیتا ہے کہ اس کیکڑے کے روپ میں یقیناً کوئی انسانی روح ہے اور اس کیکڑے کو واپس پانی میں پھینک دیتا ہے۔  کیکڑا واپس سمندر میں جاتا ہے جہاں وہ اپنی نسل بڑھاتاہے اور اصولِ وراثت کے تحت اپنی خصوصیات اگلی نسل میں منتقل  کرتا ہے ، اس کی اگلی نسل میں بھی وہ کیکڑے شکاریوں سے بچ جائیں گے جن کی پشت کسی حد تک انسانی شکل سے ملتی ہوگی یعنی جوکیکڑا جس قدر انسانی شکل سے ملتی جلتی پشت کا حامل ہوگا اتنا ہے اس کو شکاریوں سے تحفظ حاصل ہوگا اور وہ اپنے نسل بڑھا سکے گا۔ شکاریوں کا یہ رویہ بناء جانے بوجھے اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کس کیکڑے کو زندہ رہنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں اور وہ اپنے نسل بڑھاسکتے ہیں اور اپنے جنیاتی خصوصیات بشمول پشت پر بنے انسانی چہرے  کو نئی نسل کو منتقل کرسکتے ہیں، لیکن یہ شکل ہر کیکڑے میں یکساں نہیں رہتے بلکہ تھوڑی تھوڑی تبدیل ہوتی رہتی ہے جس طرح انسانوں میں بچے ماں باپ کی کاربن کاپی نہیں ہواکرتے تو ان کیکڑوں میں سے وہی شکاریوں سے محفوظ رہیں گے جن میں یہ تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں مزید بہتر  یا کم از کم اپنے ماں باپ جیسی انسانی شکل انکی پشت پر بنائیں، اس طرح سینکڑوں سال گزرنے کے بعد ان کیکڑوں کی پشت پر صرف انسانی شکل نہیں، صرف جاپانی شکل نہیں بلکہ ایک جاپانی سیمورائی جنگجوکی شکل آنے لگتی ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیکڑے خود کیا چاہتے ہیں ، کیونکہ ارتقائی عمل میں انتخاب  خواہ مصنوعی ہو کہ قدرتی ، باہر سے مسلط کیا جاتاہے۔

اپنی پشت پر انسانی چہرے کی شباہت رکھنے والے یہ جاپانی کیکڑے مصنوعی انتخاب کے ذریعے ارتقاء کی محض ایک مثال ہے جس میں انتخاب کرنے والے انسانوں کو یہ پتا بھی نہیں تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں، لیکن انسان جان بوجھ کر مصنوعی انتخاب کے ذریعے حیاتیاتی ارتقاء ہزاروں سال سے کرتے ہوئے آرہے ہیں، اور اب بھی کررہے ہیں۔ہم جو اناج ، سبزیاں اور پھل کھاتے ہیں، جن جانوروں سے دودھ ، چمڑا اور گوشت حاصل کرتے ہیں اور جن جانوروں کو بوجھ ڈھونے اور سواری کے لئے استعمال کرتے ہیں ان میں سے ذیادہ تر مصنوعی انتخاب کے ذریعے عملِ ارتقاء کا نتیجہ ہیں۔مصنوعی انتخاب  میں انسان  اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ  جانوروں ، اناج ، سبزیوں اور پھلوں کی بہت ساری قسموں میں سے کن کی حوصلہ افزائی کرنی ہے اور کس کی نہیں ، اور کون سے دو علیحدہ علیحدہ خصوصیات رکھنے والے جانداروں سے دونوں خصوصیات رکھنے والا ایک جاندار حاصل کیاجائے۔ جن جانداروں کی انسان حوصلہ افزائی کرتے ہیں وہ ایک بڑی تعداد میں دستیاب ہوتی ہیں اور جن کی حوصلہ شکنی کرتےہیں وہ کمیاب اور بعض اوقات ناپید ہوجاتی ہیں، مثال کے طور پر گھوڑا جس کی جنگلی نسل تقریباً ناپید ہوچکی ہے جبکہ سدھائے ہوئے گھوڑے بڑی تعدام میں موجود ہیں۔اسی طرح انسان یہ بھی طے کرتے ہیں کہ کس طرح ایک خاصیت حاصل کرنے  کےلئے دو الگ الگ  خاصیت رکھنے والےجانداروں کا ملاپ کروایا جائے، مثال کے طور پرخرگوش کے شکار کے لئے  کتے کی وہیپٹ نامی نسل ، کتوں کی دو الگ نسلوں، تیز رفتار گرے ہاوَنڈ اور چھوٹے جانوروں کے شکار کے ماہر ٹیریئر کے ملاپ سے حاصل کی گئی۔ اسی طرح گندم، چاول ، سبزیوں اور پھلوں میں انسان کو جو قسم پسندآئی اسے کاشت کیا گیا اور مختلف قسموں کا ملاپ بھی کروایا گیا جس کے نتیجے میں آج ہماری خوراک میں شامل یہ چیزیں موجودہ شکل میں موجود ہیں ان میں سے کئی کی جنگلی قسمیں یا تو ناپید ہوچکی ہیں یاکمیاب۔

یہ تو تھا مصنوعی انتخاب کے ذریعے ارتقاء جو انسانی خواہشات پر چند ہزار سالوں کے دوران ہوا، لیکن کرہِ ارض پر حیاتیات کی لاکھوں قسمیں ہیں یہ سب کہاں سے آیا،  میدانوں میں چرنے والے  سبزخور جانور، انکا شکارکرنے والے گوشت خور جانور، آسمانوں میں اڑتے پرندے، سمندر میں تیرتی مچھلیاں اور سب سے بڑھ کر انسان ،کیا یہ سے الگ الگ تخلیق کیئے گئے تھے ؟ زمین پر حیاتیات کا تنوع{ڈائیورسٹی} اس قدر ہے کہ دیکھنے میں ایسی لگتا ہے کہ ہر چیز علیحدہ علیحدہ تخلیق کی گئی ہے، لیکن اگر ہم غور کریں تو اس زمین پر پھیلی اس افراتفری میں بھی یکسانیت کے نقوش واضح ہونے لگتے ہیں۔اس یکسانیت کو پانے کے لئے آپ کو کسی اعلیٰ پائے کا سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اپنے گرد پھیلی ہوئی مختلف اقسام کی حیاتیات  کے زرے سے مشاہدے سے ہی واضح ہو جائے گا  کہ زمین کے کونے کونے پھیلے ہوئے تمام جاندار آپس میں کتنے مماثل ہیں۔ مثال کے طور پر جسمانی بناوٹ کو ہی لیجئے ، ہواوَں میں اڑتے پرندےہوں یاجنگلوں میں گھومتے ہاتھی، جوہڑوں میں چھپے مگرمچھ ہوں یہ زمین کے قابل ترین انسان  ، تمام کے جسم میں پانچ بنیادی عضو واضح ہے یعنی سر، دھڑ، دو اوپری متحرک عضو{ہاتھ، پر اور چوپایوں میں سامنے کی ٹانگیں} اور نچلے متحرک عضو{پاوَں}۔یہ تو محض ایک مثال ہے  آپ زرا خود نظر دوڑائیں دنیا کے حیاتیات یکسانیت سے بھری پڑی ہے، اور حیاتیاتی تنوع میں محض یکسانیت ہی نہیں بلکہ اختلاف بھی ہے۔ ہمارے روزمرہ کا مشاہدے ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ مصنوعی انتخاب کے ذریعے سے جانداروں میں تبدیلیاں  پیدا کی جاسکتی ہیں لیکن یہ تبدیلیاں بہت بنیادی نہیں ہوتیں یعنی عمل ارتقاء بذریعہ  مصنوئی انتخاب سے کتوں کی انتہائی چھوڑی نسل شُواوا  اور انتہائی بڑی نسل بلڈ ہاوَنڈ تو پیدا کی جاسکتی ہے  لیکن وہ عمل ہے جس سے اس زمین پر بسنے والی ہر مخلوق وجود میں آئی اور اس میں تنوع آیا وہ عملِ ارتقاء بذریعہ قدرتی انتخاب کہلاتاہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مصنوعی انتخاب کے ذریعے انسان نے صرف چند ہزار سالوں میں کس قدر تبدیلیاں پیدا کرلیں ہیں ، زرا تصور کریں کروڑہا سالوں سے جاری قدرتی انتخاب کس قدر تبدیلی پیدا کرسکتا ہے؟ جواب ہے کرہِ ارض پر موجودتمام نباتات، حیوانات پرندے اور انسان۔

نظریہِ ارتقاء کو عموما چارلس ڈارون { ۱۸۰۹ تا ۱۸۸۲ }اور ان کی کتاب انواع کا آغاز {اوریجن آف اسپیشیز }سے منسلک کیا جاتا ہے لیکن نظریہ ارتقاء کوئی نیا نظریہ نہیں ہے، ہزاروں سال قبل کچھ یونانی سائنسدان نظریہ ارتقاء کو صحیح سمجھتے تھے، خود اسلامی تاریخ کے سنہری دور کے عظیم سائنسدانوں بشمول ابنِ مسکاوی، ابوریحان البیرونی، نصیر الدین طوسی اور ابنِ خلدون کہ نے ارتقائی نظریات پیش کئے ، حتیٰ کہ ایک سائنسدان ابنِ الجاحظ نے جانداروں کی زندہ رہنے کے لئے جدوجہد کو قدرتی انتخاب کا ایک حصہ قرار دیا ، اس تمام تاریخ کے باوجود چارلس ڈارون وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس نظریے کہ اصول بیان کیے اور یہ بتایا کہ یہ عمل کس طرح کام کرتاہے، اسی لئے اس نظریے کو ڈارون کا نظریہ ارتقاء بھی کہاجاتا ہے ۔ ڈارون کی کتاب کے پہلے بار منظر عام پر آنے کے بعد آج ایک سو ترپن سال گذر چکے ہیں، نظریہ ارتقاء ایک مفروضہ سے شروع ہوا تھا اور آج ایک جھٹلائی نہ جاسکنے والی حقیقت میں تبدیل ہوچکا ہے، ڈارون کے پاس اس مفروضے کے حق میں محض چند دلائل تھے لیکن آج ہمارے پاس ناقابلِ تردید ثبوتوں کے انبار ہیں اس باوجود نظریہ ارتقاء کو پاکستان کے تعلیمی نصاب میں جائز مقام نہیں ملتا اور محض تعلیمی اور تعلیمی میدان سے باہر بھی اسی حقیقت کو بعض غیر متعلق لوگوں کی جانب سے جھوٹ قرار دیا جاتاہے، ایسے لوگوں کے طرف سے جن کا سائنس سے دور کا بھی تعلق نہیں، ایک سائنسی حقیقت کے بارے میں موجود ان غلط فہمیوں کو دیکھتے ہوئے ہی میں نے نظریہ ارتقاء پر مضامین لکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ اس سلسلے کا پہلا مضمون ہے، میں امید کرتا ہوں کہ یہ مضامین نظریہ ارتقاء کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد گار ہوں گے۔


{میری آپ قارئین سے محض ایک درخواست ہے کہ ان مضامین کو سوشل نیٹ ورک پر ذیادہ سے ذیادہ شیئر کریں تاکہ تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ ان سے فائدہ اٹھائیں اوراگر آپ کو مضمون سے متعلق کوئی سوال کرنا ہو تو  تبصروں کے ذریعے مجھے بھیجئے جن کا جواب میں اگلی تحریر میں دینے کی بھرپور کوشش کروں گا۔}


10 comments:

  1. بہت خوب۔ مزید تحاریر کا انتظار رہے گا۔ جس انداز میں آپ نے لکھا ہے، لگتا ہے آپ سمجھانا چاہتے ہیں۔ ورنہ تو اس طرح کے موضوعات الجھانے کیلئے مختص ہو چکے ہیں۔۔۔!!

    ReplyDelete
  2. کم سے کم میں نے ارتقاء کے حق میں اردو میں یہ پہلا مضمون پڑھا ہے، اسے جاری رکھیے میں بھی آپ کا ساتھ دینے کی کوشش کرتا ہوں.. :)

    ReplyDelete
  3. معلوم ہوتا ہے اس مضمون سے تخلیقیوں کو کافی تکلیف ہوئی ہے بے چارے ہیکے کیکڑے کی قرآن وسنت سے کوئی توجیہ تلاش کرتے کرتے تھک گئے ہوں گے..

    ReplyDelete
  4. جاندار تحریر ہے، اگلی قسط کا انتظار رہے گا۔

    ReplyDelete
  5. عبدالرؤف4 March 2012 at 12:37

    بلال صاحب یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ آپ اردو میں سائنس کے حوالے سے عوام میں پھیلی ہوئی گمراہیوں اور غلط فہمیوں کا سدباب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، مگر یہ کیا کہ آپ ایک گمراہی کو ختم کرنے کے لیے دوسری گمراہی پھیلانے میں لگ گئے؟ بحرحال مزید پوسٹس کا منتظر رہونگا کیونکہ ابھی تک آپ نے جتنا لکھا ہے اس سے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے مطابق بحرحال انسان اور بندر ایک دوسرے کے رشتہ دار ثابت نہیں ہوتے ہیں، باقی رہی جنیات میں تبدیلی کرکے مختلف اور بہتر شکل و نسل کی اجناس حاصل کرنا تو اس کے نہ تو مذہب پرست منکر ہیں اور نہ ہی اس بات سے خالق کے وجود کا انکار ثابت ہوتا ہے بلکہ نظریہ ارتقاء کے اس پہلو سے تو خالق کے تخلیقی کاموں کی تفصیل ہمارے علم میں آتی ہے جس سے انسان فائدہ اٹھا کر من پسند اجناس کی نشونما کرلیتا ہے. مگر جو بات نظریہ ارتقاء کی مجھ کو ہضم نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کچھ بندر تو انسان بن گئے جبکہ باقی سارے آج تک بندر ہی چلے آ رہے ہیں اور یا تو جنگلوں اور یا پھر ہمارے شہروں کے چڑیاگھروں میں اپنے انسانی شکلوں والے رشتہ داروں کی تفریح طبع کی خاطر قید رہتے ہیں؟ اور انسانوں کے شہروں میں انسانوں کے ساتھ رہنے کے باوجود وہ بھی انسان کیوں نہیں بن جاتے؟ اسی طرح یہ کیسے ممکن ہو گیا کہ پہلے کیکڑے میں برخلاف کیکڑے کی ازلی فطرت کے محض اتفاقیہ ہی اسکی پیٹھ پر انسانی چہرے کے نقوش نمودار ہو گیے ؟ اور ایسا ہی اتفاق دنیا کے دیگر حصوں کے کیکڑوں کے ساتھ کیوں نہیں ہو پا رہا ہے؟ اور جب ہم کسی کمپیوٹر، گھڑی ، کار وغیرہ کو دیکھتے ہیں تو کیا ایک لمحے کے لیے بھی ہمارے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ بس ایسے ہی خود بخود بن گئی ہوں گی؟ جب عام چھوٹی موٹی اشیاء کا یہ معاملہ ہے تو پھر اتنی بڑی کائنات، جس میں سائنسدانوں کے بیان کے مطابق ایک گہرا intelligent design کارفرما ہے، کے بارے میں یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ اس کا کوئی خالق نہ ہونا ممکن ہے؟ اس بات کا 1/1,000,000,000,000,000 گمان بھی محال ہے کہ یہ سب کچھ بغیر کسی خالق کے بن گیا ہے جبکہ سو فیصد امکانات خالق کے ہونے کے ہیں۔ذرا عقلی اعتبار سے ان سوالات کے جواب تلاش کیجیے:
    ۱۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم بیس تیس ہزار پتھر ہوا میں کھربوں سالوں تک اچھالیں اور اچھالتے رہیں اور جب وہ گریں تو محض ایک بار ہی سہی مگر وہ تاج محل تو کیا، ایک عام سا مکان بنا ہوا ہو؟
    ۲۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سیاہی کو اچھالا جائےاور جب وہ کاغذ پر گرے تو غالب کی کوئی نظم لکھی ہوئی ہو؟ یا ایک بامعنی جملہ ہی لکھا ہوا ہو؟
    اگلی قسط کا شدت سے انتظار رہے گا.

    ReplyDelete
    Replies
    1. عبدالرؤف بھائی،
      آپکا تقریبا اسی سے ملتا جلتا کمنٹ "مکی کا بلاگ" پر بھی پڑھا، آپکی ہر بات کا جواب تو شاید نہ دے سکوں لیکن آخر میں دو انداز میں پوچھے گئے ایک ہی سوال کا جواب البتہ دے سکتا ہوں، اور وہ یہ کہ، جی ایسا بالکل ممکن ہے کہ سیاہی کو اچھالا جائے اور جب وہ کاغذ پر گرے تو غالب کی کوئی نظم لکھی ہو، اور وہ اس طرح کہ اگر سیاہی کو لامتناہی مرتبہ ہوا میں اچھا جائے تو اسمیں ایک بلکہ ایک سے زائد بار ضرور ایسا ہوگا کہ جب وہ گرے تو غالب کی نظم تو کیا منٹو کا ناول لکھا ہوا ہو۔

      Delete
  6. نظریہ ارتقا کا نہ تو مخالف ہوں اور نہ حامی ۔
    مگر علم حاصل کرنے کے لیے دونوں فریقین کا مطالعہ کرنا چاہتاہوں ۔
    نظریہ ارتقا کے مخالفین کو کافی عرصے سے پڑھ رہا ہوں ۔
    مگر اس نظریے کو دوسرے رخ سے پڑھنے کا موقع اب ملا ہے ۔
    بہت خوب بلال صاحب کوشش جاری رکھیے ۔
    ایک اور بات کہ ہمارے ہاں کسی نظریے کو بعض اوقات اس لیے ٹھیک مان لیا جاتا ہے کہ وہ
    کسی نے مذہب کے نام پر پیش کیا ہوا ہوتا ہے ۔
    ایسا غلط ہے ۔
    دین اپنی جگہ بالکل درست ہے بس ہمارے دیکھنے کا زاویہ غلط ہو جاتا ہے ۔ کیوں کہ ہم ایک ہی رخ سے معاملے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ اور ضد پر آجاتے ہیں کہ میں نے سمجھا ہے وہی ٹھیک ہے ۔
    اور اس غلط کے ہونے کا ہمیں بہتر طریقے سے اس وقت پتہ چلتا ہے جب ہم میز کے دوسری طرف بیٹھ کر اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں سائنس کو سمجھنے کا رواج نہیں ہے ۔
    اور اگر سمجھتے بھی ہیں تو مذہبی راویات اور لگی بندھی قیاس آرائیوں کی بنیاد پر ۔
    اللہ ہم سب کو دین سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے

    ReplyDelete
  7. makki bhai may app ka baray shook se pharta tha ......lakin kal se app ka blog kool nahi raha hay......koi tarika hay app k blog daknay ka

    ReplyDelete
  8. Its a very nice effort that should be appreciated. I would also like you to introduce people about the book written by Richard Dawkins " A Blind Watchman". This book is full of examples that can never be negated by a person who has some brain in his/her head.

    I know it is hard to convince people about the reality of evolution. People in Pakistan have a mindset to deny Darwin's theory of evolution. its almost two centuries long discussion in the subcontinent and reminds me of the literary conflict between Sir Syed Ahmed Khan and Akbar Allah Abadi. Both of them represent our present day society with the exception that "Sir Syeds" now are at the hit lists of 'Allah Abadies'. "Allah Abadies" now a day don't argue, they just blast or fire these days.
    Sir Syed Ahmed Khan was called "naturee" by the so called religious people represented by Akbar Allah Abadi in those days. Akbar argued against the theory of evolution and said
    "Darwins nay Kaha Boozna hoom mein
    Mansoor Bola Khuda Hoon Mein"
    A country where biology teachers don't believe this theory and clearly mention their students in the 9th grade that theory of evolution is totally rubbish and the children have just to read it and learn by heart, it remains to be a challenge to convince even the science people to make them understand that "Evolution is not a myth rather it is a fact".
    I would be happy to join hands with you in this effort.

    ReplyDelete
  9. ye ek naya aur mazhab ke mad e muqabil dosra nazaria he jo dhere dhere khatam hota jaraha he inke pas sirf mafroze hein jo sirf ek kahani ki bunyad par hein ..behar hal naye naye khayalat padhne me maza bohut ata he .me esi tehrirein dhond dhond kar padta hun .time pas hi sai .

    ReplyDelete